Header Add

قرآن و سنت کی روشنی میں معلم کے اوصاف

Print Friendly and PDF

قرآن و سنت کی روشنی میں  معلم  کے اوصاف

اسلام علم و تعلیم کی اہمیت کا بہت زیادہ قائل ہے یہاں تک کہ قرآن مجید میں سب سے پہلے جس نعمت کا تذکرہ کیا ہے وہ نعمت علم ہے جیسا کہ ابتدائی وحی حضور اکرم پرصلی اللہ علیہ والہ وسلم پر نازل ہوئی تو اس میں یوں علم کی اہمیت کو بیان فرمایا ہے :


علَّمَ الْانسَانَ مَا لَمْ يَعْلَم۔ سورہ علق آیت ۵

(اور انسان کو وہ باتیں سکھائیں جس کا اس کو علم نہ تھا)۔

ایساکام جوجس قدر اہمیت والا ہو اس کو صحیح طور پر انجام دینے کےلئے خصوصی آداب و رسوم کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اس کی انجام دہی میں کوئی کوتاہی انسان سے سرزد نہ ہو۔ جس قدر اس کام کی انجام دہی کی راہ میں انسان کوتاہی سے محفوظ رہے گا وہ اس کام کے ہدف کو حاصل کرنے میں زیادہ کامیاب رہے گا۔ لہٰذا جو کوئی علم و معرفت کی وادی میں قدم رکھنا چاہتا ہے تو اس کو اس بڑے فریضے کی انجام دہی سے پہلے اس کے آداب و فرائض  اور معلم سے جڑی ہوئی خصوصیات کا جاننا بہت ضروری ہے۔

اہل علم کے لئے لازم خصوصیات

قرآن مجید کی بیان کردہ تعلیمات کے مطابق اہل علم کے اندر پانچ قسم کی خصوصیات کا پایا جانا ضروری ہے۔اگر معلم میں یہ پانچ خصوصیات پیدا کر دی جائیں تو ایک ایسی  مثالی ٹیم تیار کی جاسکتی ہے جوآج تک تیار نہیں ہوئی۔

۱۔ ایمان :

وَ الرَّاسِخُونَ فىِ الْعِلْمِ يَقُولُونَ ءَامَنَّا بِهِ كلُ‏ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا۔ سورہ آل عمران آیت 7

ترجمہ: اور علم میں راسخ مقام رکھنے والے ہی جانتے ہیں جو کہتے ہیں: ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں، یہ سب کچھ ہمارے رب کی طرف سے ہے۔

۲۔ توحید:

اشَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَاهَ إِلَّا هُوَ وَ الْمَلَئكَةُ وَ أُوْلُواْ الْعِلْم۔ سورہ آل عمران آیت 18

ترجمہ : اللہ نے خود شہادت دی ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں اور اہل علم نے بھی یہی شہادت دی۔

۳۔ حزن و ملال:

إِنَّ الَّذِينَ أُوتُواْ الْعِلْمَ مِن قَبْلِهِ إِذَا يُتْلىَ‏ عَلَيهْمْ يخَرُّونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا۔ وَ يَقُولُونَ سُبْحَانَ رَبِّنَا إِن كاَنَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُولًا۔ وَ يخَرُّونَ لِلْأَذْقَانِ يَبْكُونَ وَ يَزِيدُهُمْ خُشُوعًا۔ سورہ اسراء آیت  107 ۔  109

ترجمہ : اس سے پہلے جنہیں علم دیا گیا ہے جب یہ پڑھ کرانہیں سنایا جاتا ہے تو یقینا وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گرپڑتے ہیں۔ اور کہتے ہیں: پاک ہے ہمارا پروردگار اور ہمارے پروردگار کا وعدہ پورا ہوا۔ اور وہ ٹھوڑیوں کے بل گرتے ہیں اور روتے جاتے ہیں اور ان کا خشوع مزید بڑھ جاتا ہے۔

۴۔ خشوع:

وَ يخَرُّونَ لِلْأَذْقَانِ يَبْكُونَ وَ يَزِيدُهُمْ خُشُوعًا۔سورہ اسراء آیت  107 ۔  109

ترجمہ : اور وہ ٹھوڑیوں کے بل گرتے ہیں اور روتے جاتے ہیں اور ان کا خشوع مزید بڑھ جاتا ہے۔

۵۔ خشیت الٰہی:

إِنَّمَا يخَشىَ اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَؤُاْ۔ سورہ فاطر آیت   28

ترجمہ : اللہ کے بندوں میں سے صرف اہل علم ہی اس سے ڈرتے ہیں۔

علم اور عالم کا مقام حدیث نبوی کی روشنی میں :

تفقہ فی الدین اور علم دین کو اللہ کی طرف سے ایک خیر قرار دیتے ہوئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں :

مَنْ‏ يُرِدِ اللَّهُ‏ بِهِ‏ خَيْراً يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ.۔ منیۃ المرید  ص  ۹۹

ترجمہ : خداوند عالم جس کے لئے بھلائی چاہتا ہے اس کو دین کا ادراک عطا کردیتا ہے ۔

اور دوسری جگہ طلب علم کو تمام مسلمانوں پر ایک فریضہ قرار دیتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:

طَلَبُ‏ الْعِلْمِ‏ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ. منیۃ المرید  ص  ۹۹

ترجمہ : علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔

ایک اور جگہ پر فرماتے ہیں :

مَنْ‏ طَلَبَ‏ الْعِلْمَ‏ فَهُوَ كَالصَّائِمِ نَهَارَهُ الْقَائِمِ لَيْلَهُ وَ إِنَّ بَاباً مِنَ الْعِلْمِ يَتَعَلَّمُهُ الرَّجُلُ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَكُونَ أَبُو قُبَيْسٍ ذَهَباً فَأَنْفَقَهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ. منیۃ المرید  ص   ۱۰۰

ترجمہ : علم حاصل کرنے والا انسان اس شخص کی طرح ہے جو دن بھر روزہ رکھتا ہو اور پوری رات نماز پڑھ کر گزار دیتا ہو اور علم کا ایک باب حاصل کرلے تو اس کے لئے راہ خدا میں کوہِ ابو قبیس کے برابر سونا خرچ کرنے سے بہتر ہے۔

Print Friendly and PDF

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی

Post Add 1

Post Add 2