Header Add

نظامِ تدریس میں اعتدال و تدریج کی اہمیت

Print Friendly and PDF

نظامِ تدریس میں اعتدال و تدریج  کی اہمیت

اساتذہ کو اس بات کا بھی لحاظ رکھنا چاہئے کہ اسباق کو تدریجا اور تھوڑا تھوڑا کر کے پڑھائیں ،ایسا نہ ہو کہ سال کا اکثر وقت گپ شپ میں گذار دیں اور جب امتحان کا وقت قریب آئے تو جلدی جلدی پڑھائیں،اور مقررہ نصاب میں سے کچھ پڑھائیں اور کچھ چھوڑ دیں، اورطلبہ سے کہیں کہ تم لوگ اسے خود سے پڑھ لینااور یاد کر لینا ،یا اکثر ایام کلاس سے غیر حاضر رہیں ، اورد نیا بھر کے دورے اور سفر کرتے رہیں اور اخیر میں آکر تیزی سے کتابوں کا دورہ کرا دیں، یہ طریقہ ہرگز صحیح نہیں ہے،طلبہ کو تھوڑا تھوڑاان کی قابلیت ا ور فہم کی صلاحیت کے مطابق پڑھانا اور سمجھانا چاہئے ۔ دورہ نہیں کرانا چاہئے، اور نہ وقت گذاری کرکے اکٹھے زیادہ پڑھا نا چا ہئے ۔

سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ ایک استاذ کو جب کوئی کتاب پڑھانے کے لئے دی جائے تو وہ سب سے پہلے سال بھر کے تعلیمی ایام کا حساب لگا ئے، اس طرح کہ سال کے تین سو ساٹھ دن جوڑ کر دیکھے کہ ان میں سے کتنے دن تعلیم ہو گی، اور کتنے ایام رخصت وغیرہ میں نکل جائیں گے ۔ حساب لگاتے وقت رخصت علالت ، رخصت اتفاقی ،جمعہ کی چھٹیاں ،سہ ماہی ، ششماہی اور سالانہ امتحان اور ان کی تیاریوں کی چھٹیاں ،عید ،بقرعید کی چھٹیاں وغیرہ تمام تعطیلات کو مد نظر رکھیں، بلکہ حساب لگاتے وقت یہ بھی ملحوظ رکھناچاہئے کہ درمیان میں مہمانوں کی آمد، یا مدرسہ کے ذمہ داروں کی تشریف آوری کی وجہ سے لگ بھگ کتنے دن تعلیم نہیں ہو گی، اور اس کا بھی خیال رہے کہ یقینی طور سے سالانہ امتحان کی تیاری سے کم از کم پندرہ، بیس روز پہلے ہی کورس ختم ہوجائے ،کیونکہ اگر ایسا نہ ہو گاتو طلبہ کو مذاکرہ، آموختہ کے اعادہ، اور اساتذہ سے پوچھنے كے لئے موقعہ نہیں ملے گا ، اور نہ مدرس انھیں امتحان اور اسکی تیاری کے بارے میں کچھ بتا سکے گا۔ جبکہ مدرس کو امتحان سے پہلے اس کے بارے میں اہم اہم باتیں ضرور بتانا چاہئے،مثلاً یہ کہ امتحانی سوالات کے جوابات کیسے لکھنا چاہئے ، امتحان کی تیاری کیسے کرنی چاہئے ،پرچہ لکھتے وقت کن کن چیزوں کا لکھناضروری ہے وغیرہ وغیرہ۔

یاد رہے کہ جو اساتذہ سال بھر کا ٹائم ٹیبل بنا کر پڑھاتے ہیں وہ مناسب رفتار سے اور اچھی طرح پڑھا تے ہیں، اور ان کا کورس بھی آسانی سے ختم ہو جاتا ہے ۔اور جن کا کوئی ٹائم ٹیبل نہیں ہو تا وہ صحیح طریقے سے نہیں پڑھاتے ،اور عموماً ان کا کورس بھی وقت پر ختم نہیں ہوتا،اور تعلیمی میدان میں وہ ناکام رہتے ہیں، اس واسطے کہ وہ کبھی اتنا کم پڑھاتے ہیں کہ طلبہ کو نہ آسودگی ہوتی، اور نہ کورس ختم ہو تا ہے، اور کبھی اتنا زیادہ پڑھادیتے ہیں کہ طلبہ کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا، اور جو کچھ وہ پڑھا تے اور بتاتے ہیں وہ اسے ہضم نہیں کر پاتے۔ کیونکہ وہ نہ اتنا مطالعہ کرکے آتے ہیں اور نہ ہی استاذ اطمینان اور تفصیل کے ساتھ پڑھاتا ہے، بلکہ جلدی جلدی عبارت پڑھاکر آگے بڑھ جاتا ہے ،اور بہت سی چیزوں کو چھوڑ کرکہہ دیتا ہے کہ اب تم لوگ بڑی جماعت میں پہونچ گئے ہو، خود سے سمجھ لینا ، اور یاد کر لینا،اوردونوں صورتوں میں طلبہ کا علمی خسارہ ہوتا ہے۔

اسی طرح اساتذہ و معلّمات کو سبق کے سمجھانے اور معلومات دینے میں بھی اعتدال سے کام لینا چاہئے، نہ اتنی کم معلومات دیں کہ درس کا خاطر خواہ فائدہ نہ ہو اور طلبہ کی علمی تشنگی برقرار رہے، اور نہ اتنی تفصیل میں جائیں کہ ان کا سمجھنا اور یاد رکھنا طلبہ کے لئے مشکل یا نا ممکن ہو ۔مثلا ترجمہ معانی القرآن پڑھا تے وقت مفردات کی لغوی اور نحوی صرفی تشریح کرنی چاہئے ،آیات کا لفظی اور سلیس ترجمہ کرنا چاہئے ،سبب نزول اور آیتوں سے مستنبط ہونے والے کچھ مسائل بھی بتانا چاہئے ، صرف لفظی ترجمہ پر ہی اکتفا ء کرنا اور شان نزول وغیرہ کو بالکل ترک کردینامناسب نہیں ۔

 اسی طرح کسی جگہ اتنی معلومات دے دینا کہ طلبہ ہضم نہ کرسکیں اور کسی جگہ بالکل خاموشی اختیار کرنا یا بہت مختصر معلومات دینابھی مناسب نہیں۔ صحیحین وغیر ہ کتب حدیث کے پڑھانے والے بعض اساتذہ صرف ’’صلی اللہ علیہ وسلم‘‘کہنے پر اکتفا کرتے ہیں،اور جامعہ اسلامیہ میں تفسیر کے ایک استاد تھے جو تفسیر فتح القدیر للشوکانی پڑھا تے تھے، وہ جب پڑھانے آتے تو زبانی آیتیں پڑھتے جاتے اور جلالین میں جتنی مختصر تفسیر ہے اتنی ہی مختصرتفسیر بیان کر دیتے، بلکہ صرف الفاظ قرآن کے آسان عربی میں ترجمے پر اکتفاء کرتے، اور کسی روز پاؤ پارہ ،کسی روز آدھا پارہ پڑھا کر چلے جاتے ،اس پرکئی طلبہ نے کہا:شیخ! تفسیر فتح القدیر مفصل ہے ،اس میں لغت، نحو، صرف، بلاغت، فقہ ، احادیث و آثاروغیر ہ کے مسائل بیان کئے گئے ہیں ،آپ ان پر بھی روشنی ڈالیں اورکچھ باتیں اپنی جانب سے بھی بتائیں، جتنی باتیں آپ بتاتے ہیں وہ بہت مختصر اور نا کافی ہیں ۔

اس پر انھوں نے جواب دیا کہ میں جانتاہوں کہ تم لوگ کچھ نہیں سمجھ پاؤگے اسی واسطے میں جامعہ میں پڑھانے كے لئے نہیں آ رہا تھا ،مگر شیخ ابن باز  رحمہ الله نے اصرار کیا، اور کہا : آپ سے طلبہ کو فائدہ ہو گا، اس واسطے میں چلا آیا ، اگر ہم زیادہ بتائیں گے تو تم لوگوں کے کچھ پلے نہیں پڑے گا ۔اس پر طلبہ نے کہا :شیخ !مزید بتائیے ہم لوگ ان شاء اللہ سمجھیں گے ۔ توانھوں نے ایک آیت پڑھی ،اورجاہلی شعراء کے تقریبا ۱۰۰ اشعار اس کے ایک غریب لفظ کی تفسیر وتشریح میں پڑھے ،او ر پھر پوچھا کہ بتاؤ: کیا سمجھا ؟اور کتنا یاد ہے ؟

در حقیقت یہ افراط و تفریط اور حد اعتدال سے تجاوز کرناہے ۔ کہ یا تو اتناکم بتائیں کہ فتح القدیر کو جلالین بنادیں، یا اتنا زیادہ بتائیں کہ ایک لفظ پر ۱۰۰؍ اشعار سنائیں اور چاہیں کہ سب طلبہ کو بر وقت یاد بھی ہو جائے ،یہ تدریس کے صحیح منہج کے خلاف ہے ۔ہر مدرس اور معلمہ کوطلبہ اور طالبات کے معیار کے مطابق معتدل انداز میں کتاب پڑھانا اور معلومات دینا چاہئے، اور مناسب مقدار میں روزانہ پڑھانا چاہئے ۔اگراعتدال اور تدریج سے کام نہیں لیا گیا تو درس کا خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوگا۔

جامعہ سلفیہ کے میں سے ایک استاد مولانا عبد المعید بنارسی رحمۃ اللہ علیہ تھے، یہ منطق ،فلسفہ اور نحو وصرف میں بڑے ماہر تھے، اس کے ساتھ تفسیر وحدیث بھی اچھا پڑھاتے تھے ، یہ ہمیشہ تعلیمی سال کی ابتداء ہی میں تعلیمی ایام کا حساب لگا لیتے ، جس میں جملہ تعطیلات کے علاوہ یہ بھی ملحوظ رکھتے کہ کبھی ناظم اعلی صاحب کے آنے کی وجہ سے اور کبھی کسی مہمان کی آمد اور کبھی کوئی ہنگامی پروگرام ہونے کی وجہ سے اسباق کا کتنا ناغہ ہوگا، پھر یہ دیکھتے کہ کتاب میں کتنے صفحات اور ہر صفحہ میں کتنی سطریں ہیں ،پھر انھیں تعلیمی ایام پرتقسیم کر کے دیکھتے کہ روزانہ کتنا پڑھائیں تو کورس آسانی سے ختم ہو جائے گا ؟ پھر اسی حساب سے روزانہ پڑھاتے، اورمعلومات بھی اتنی مقدار میں دیتے کہ طلبہ آسانی سے سمجھ جاتے ،جیسے جلالین میں ترجمہ کراتے اور اس میں مذکورہ مسائل کو متوسط انداز میں اچھی طرح سمجھاتے، نہ بہت لمبی تقریر کرتے اور نہ بہت اختصار سے پڑھاتے، جس سے طلبہ بھی مطمئن رہتے اور سب سے پہلے نصاب بھی ختم ہو جاتا۔ بہر حا ل اساتذہ کو تعلیم و تدریس میں اعتدال اور تدریج کا لحاظ رکھنا چاہئے ۔

غورفرمائیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کا نزول ۲۳؍ سال میں تھوڑا تھوڑا کر کے ہوا، اور ایک ہی مرتبہ پورا قرآن نازل نہیں کردیا گیا،کیوں؟ اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے یاد کرنے اور لو گو ں تک پہچانے میں آسانی ہو، او ر لوگوں کو بھی اس کے سمجھنے، یاد کرنے، اور عمل کرنے میں سہولت ہو ۔

اسی طرح اسلامی احکام و فرائض کا نزول بھی بتدریج ہوا، اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو انھیں ایک ہی مرتبہ نازل کر دیتا، مگر متعدد مصلحتوں کے پیش نظر ایسا نہیں کیا ۔ بہر حال تدریج اور اعتدال قرآن کریم کا منہج ہے، اور اس میں بڑی حکمتیں اور فوائد ہیں، اس واسطے اساتذہ و معلّمات کو بھی تعلیم و تربیت میں اس کا لحا ظ رکھنا چا ہئے۔

 حضرت معاذ بن جبل رضى اللہ عنہ کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن بھیجا تو انھیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: تم ایک ایسی قوم کی طرف جا رہے ہو جو اہل کتاب ہیں، تم انھیں پہلے توحید و رسالت کی دعوت دینا، وہ جب یہ بات مان لیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسو ل ہیں تو پھر انھیں یہ بتانا کہ اللہ نے ان پر شب و روز میں پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں۔ جب وہ یہ بھی تسلیم کرلیں تو پھر انھیں یہ بتانا کہ اللہ نے ان پر زکاۃ فرض کیاہے جو ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور غریبوں اور فقیروں پر خرچ کی جائے گی۔ متفق علیہ(مشکوٰۃ:۱؍۵۵۵ ح ۱۷۷۲)

Print Friendly and PDF

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی

Post Add 1

Post Add 2