Header Add

بچوں کی تربیت اور مکافاتِ عمل

Print Friendly and PDF

بچوں کی تربیت اور مکافاتِ عمل

بچوں کی تربیت کی تفصیل میں جانے سے پہلے زندگی کا فلسفہ سمجھ لیں۔ زندگی مکافاتِ عمل ہے۔ جو بوئیں گے وہی کاٹیں گے۔ جو کسی کو دیں گے وہی آپ کی طرف پلٹ کر آئے گا۔ انسان کے عمل کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ایک کا تعلق گھر سے باہر اور ایک کا تعلق گھر کے اندر کے معاملات سے ہوتا ہے۔ بچہ ابتدائی دس سالوںمیں اپنے ماحول سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔ وہ جو دیکھتا ہے اس کا دماغ خودکار طریقہ سے اسے پروسیس کرتا رہتا ہے۔ اس کے محسوسات ، نظریات میں کنورٹ ہوتے ہیں۔ نظریات  خیالات میں منتقل ہوجاتے ہیں اورخیلات عادات کا روپ دھار لیتی ہیں۔

عموماً بچوں کا زیادہ وقت  ماں کے ساتھ گزارتا ہے۔ بچے بالخصوص ماں اور باپ کے  ہر عمل کو انتہائی غور سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔دیکھتے ہیں اور پھر ماحول میں موجود عناصر کے اثر کے تحت ہی اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سمجھتے ہیں اور پھر نتیجہ بھی خود ہی اخذ کرتے ہیں۔عام طور پر اس سارے عمل میں بچوں کو کوئی بیرونی امداد حاصل نہیں ہوتی، چنانچہ وہ نتائج اخذ کرنے میں بھی آزاد ہوتے ہیں۔ یہی نتیجہ بچے کی عادت میں تبدیل ہوجاتا ہے۔

اگر ماں چاہتی ہے کہ اس کا بچہ نیک، کامیاب اور اچھا بنے تو اسے بچے کے سامنے دیوی بننا ہوگا اور والد کو ولی اللہ۔ اس کے بغیر آپ اپنے مقاصد میں کبھی کامیاب بہیں ہوسکتے۔ آپ جتنا دل چاہے "کاسمیٹک سرجری" کرلیں، آپ کو اپنے مقصد میں کلی  کامیابی نہیں ہوگی۔ اس بات کی مذید وضاحت کے لئے یہاں میں ایک واقعہ پیشِ خدمت کرنے لگا ہوں۔

میرے پاس ایک دوست ملنے آئے۔  ان کا  بہت بڑا بزنس ہے۔ یہ انتہائی دانشمند انسان اور کامیاب بزنس مین ہیں۔  باتوں باتوں میں بچوں کے متعلق گفتگو شروع ہوگئی۔ موصوف اس بات کے سخت حق میں تھے کہ بچوں کی تربیت کی طرف خاص دھیان دینا چائیے کیونکہ یہی ہمارا سرمایہ حیات ہیں۔ میرے دریافت کرنے پر اُنہوں نے بتایا کہ تینوں بچے بیکن ہاوس میں پوزیشن ہولڈر ہیں اور سارا تعلیمی کیئرر سکالرشب لیتے رہے ہیں۔ ایک باہر میڈیکل میں سپیشلائزیشن کے لئے گیا ہے، لڑکی فارن آفس میں اعلیٰ عہدہ پر فائز ہے اور چھوٹا بیٹا ابھی ایم فل کررہا ہے۔

میں نے اس سارے واقعہ کا ذکر اپنی بیوی سے کیا  تو اس کا جواب سن کر میں حیران رہ گیا۔  ان صاحب کے سسر کی وفات ہوگئی ۔ افسوس کے لئے میری والدہ اور بیوی ان صاحب  کے گھر گئے۔ ابھی انہیں بیٹھے  پانچ منٹ ہی ہوئے تھے اور رسمی جملوں کا تبادلہ ہورہا تھا ااور فاتحہ بھی نہ پڑھی گئی تھی کہ چھوٹا بچہ جو کہ ایم فل کرہا تھا ، ڈرائنگ روم میں آیا اور اپنی ماں سے کہنے لگا۔

"امی ان مہمانوں نے کب جانا ہے۔ جلدی کریں، ہمیں شاپنگ پر بھی جانا ہے۔"

جن دوست کی میں  نے بات کی ہے، اُن کے والد مقامی قبرستان میں ہی دفن ہیں۔ وہ علاقہ کی بہت معتبر شخصیت تھی۔ سوسائٹی کی کوئی بھی تقریب،  شادی، خوشی، غمی کی کوئی محفل  ان کی شرکت کے بغیر نامکمل سمجھی جاتی تھی۔قبرستان میں داخل ہوتے وقت سب سے پہلے انہی بزرگ کی قبر آتی ہےجس کا تعویز ٹوٹا ہوا ہے۔ جب بھی میں قبرستان جاتا ہوں مجھے فوراً اپنے دوست کی بات یاد آجاتی ہے۔اسے  کہتے ہیں مکافاتِ عمل۔ اللہ اس طرح سے انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو سلب کر لیتے ہیں اور توفیقات چھین لیتے ہیں۔

اپنی اولاد سے توں تعظیم کی امید نہ رکھ      

اپنے ماں باپ سے جب توں نے بغاوت کی ہے

اولاد کی تربیت سے متعلقہ ایک اورواقعہ مجھے یادآرہا ہے۔ بہت مشہورواقع ہے اوراکثر نے یہ سنا ہوگا۔ میں مختصر اسے بیان کرنے لگا ہوں۔

ایک نیک آدمی  وضو کررہا تھا۔ دریا میں پانی کے بہاو کے ساتھ ایک سیب تیرتا ہوا آرہا تھا۔ آدمی نے وہ سیب کھا لیا۔ بعد ازاں خیال آیا کہ سیب کے کھانے میں تو مالک کی مرضی ہی شامل نہ تھی۔ مالک کو ڈھونڈتے سیبوں کے باغ پہنچ گئے اور غلطی کی معافی مانگی۔ باغ کے مالک  معافی کے لئے باغ میں دس سال تک بلا اجرت غلامی کرنے کی شرط رکھی۔ دس سال غلامی کرنے کے بعد جانے کی اجازت مانگی تو مالک نے کہا کہ ابھی سزاباقی ہے۔ تم کو میری بیٹی سے شادی کرنا ہوگی۔ جو اندھی ہے، لنگڑی ہے اور ٹنڈی بھی ہے۔

نیک آدمی اس پر بھی مان گیا کیونکہ جانتا تھا کہ قیامت کا عذاب اس سے کئی زیادہ سخت اور نہ ختم ہونے والا ہے۔

نکاح ہوگیا ، بیوی کو دیکھاتو بالکل ٹھیک، بھلی چنگی اورخوبصورت نیک بخت عورت تھی۔ بھاگا بھاگا مالک کے پاس گیا اور سارا ماجرہ سنایا۔ مالک نے کہا کہ میں اب بھی وہی کہتا ہوں جو پہلے کہاں تھا۔میری لڑکی اندھی ہے کیونکہ آج تک اس نے کچھ غلط دیکھا نہیں۔ لنگڑی ہے کیونکہ بڑائی کی طرف چل کر کبھی گئی نہیں اور ٹنڈی ہے کیونکہ اس نے بڑا کام نہیں کیا۔  اس نیک مرد اور نیک بخت کے جو اولاد ہوئی ان کا نام شیخ عبدالقادر جیلانی تھا۔

لہذا اگر والدین کی خواہش ہے کہ بیٹے میں حسین جیسی سیرت ہو تو ماں کا کردار فاطمہ جیسا  اور باپ کی سیرت علی جیسی ہو۔ بیج اگر تُمہ کا ہوگا تو اس پر شیریں آموں کی خواہش تو کی جاسکتی ہے لیکن عملی طور پر اس پر تُمہ کے کڑوے پھل ہی آئیں گے۔ بیج انگور کا ہوگا تو ہی انگور کی فصل آئے گی۔

نال کسنگی سنگ نہ کرئیے کُل نو نلاج نہ لائیے ہُو

تمے تربوز مول نہ ہوندے توڑ مکے لے جایئے ہُو

کانواں دے بچے ہنس نہ تھیندے موتی چوگ چگایئے ہُو

کوڑے کھوہ نہ مٹھے ہوندے باہو سئے مناں کھنڈ پایئے ہُو

بچے والدین کی شبیہ ہوتے ہیں۔ میں بچوں کو مل کر بتا سکتا ہوں کہ ان کے والدین کیسے ہیں اور والدین کو ملکر مجھے علم ہوجاتا ہے کہ بچے کیسے ہونگے؟

اگر والدین میں جھوٹ بولنے کی عادت ہے  تو بچے لازماً جھوٹے ہونگے۔ اگر ماں باپ آپس میں لڑائی جگڑا کرتے ہیں تو بچے بھی جگڑالو ہونگے۔ بچے وہی کریں گے تو وہ دیکھتے ہیں اورماں باپ ان کے لئے بہترین رول ماڈل ہوتے ہیں۔ اگر دادی خدیجہ جیسی عورت ہوگی تو نواسے حسین جیسے ہونگے اور اگر دادی ہندہ ہوگی تو نواسہ لازماً یذید ہوگا۔

Print Friendly and PDF

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی

Post Add 1

Post Add 2