Header Add

سیرتِ نبوی کی روشنی میں درسی مہارتوں کا استعمال

Print Friendly and PDF

سیرتِ نبوی کی روشنی میں درسی مہارتوں کا استعمال

اساتذہ کو چاہئے کہ درس کے مسائل اور عبارتوں کی اچھی طرح تشریح کریں اور جومسائل اور باتیں تفصیل طلب ہوں انھیں تفصیل کے ساتھ سمجھائیں، صرف ترجمہ کر کے یا سر سر ی اشارہ کر کے نہ گزر جائیں، البتہ جو باتیں طلبہ کے لئے آسان ہوں اور جنھیں وہ پہلے سے پڑھ اور سمجھ چکے ہوں ان کی جانب اشارہ کرنا ہی کافی ہے ۔اسی طرح مشکل عبارتوں کی بھی اچھی طرح تفہیم کریں ، پہلے مفردات کی تشریح کریں ،پھر پوری عبارت کو سمجھائیں ،لفظی ترجمہ، اصطلاحی ترجمہ ، واحد ،جمع اور مصدر ،اصل مادّہ ،باب ،صیغہ اور ترکیب وغیرہ بتائیں ،تاکہ عبارت اچھی طرح حل ہوجائے اور اس کا مفہوم اچھی طرح واضح ہو جائے ۔

طلبہ کے معیار کے مطابق باتیں بتانا

علمی اور فقہی باتوں کو پیش کرتے وقت طلبہ ، طالبات اور حاضرین کے ذہنی وعلمی معیار اور عمر وغیرہ کا لحاظ رکھنا چاہئے اور ان کے سامنے ایسی باتیں ہرگز نہیں پیش کرنی چاہئے جو ان کی سمجھ سے بالا تر ہو ں۔حضرت علی کرم اللہ وجہ فرماتے ہیں :

’’ حَدِّثُوا النَّاسَ بِمَا يَعْرِفُونَ أَتُحِبُّونَ أَنْ يُكَذَّبَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ ‘‘ (رواہ البخاری : ۱؍۲۲۵)

لوگوں سے ایسی باتیں بیان کرو جو وہ سمجھ سکیں ،کیا تم لوگ چاہتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کی جائے ۔

اور بعض روایتوں میں ہے :

’’دَعُوْا مَا يُنْکِرُوْن‘‘(رواہ آدم بن ا یاس وابو نعیم)

یعنی جو باتیں اور مسائل ان کے معیار سے بلند ہوں اور ان کوبیان کرنے کی صورت فتنہ میں پڑ جانے کا خطرہ ہو ان مسائل اور باتوں کو چھوڑ دو۔

اور عبد اللہ بن مسعودرضى اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’ مَا أَنْتَ بِمُحَدِّثٍ قَوْمًا حَدِيثًا لاَ تَبْلُغُهُ عُقُولُهُمْ إِلاَّ كَانَ لِبَعْضِهِمْ فِتْنَةً ‘‘ (صحيح مسلم: 1/ 9)

جب آپ کسی قوم سے ایسی باتیں کریں گے جو ان کی سمجھ سے بالاتر ہوں گی تو یہ ان میں سے بعض لوگوں کے لئے فتنہ کا باعث ہوں گی۔

اس لئے علمی باتیں اور مسائل پیش کرتے وقت مخاطبین کے علم ،عمر اور سمجھ بوجھ وذہنی معیار کا لحاظ کرنا ضروری ہے ۔ بعض اساتذہ نابالغ بچوں اور بچیوں کے سامنے نکاح ، جماع، غسل جنابت،حیض ونفاس اور ولادت وغیرہ کے مسائل چھیڑ دیتے ہیں ،بعض لوگ چھوٹے بچوں کے سامنے انکار حدیث کی تاریخ اورمنکرین حدیث کے شبہات وغیرہ بیان کرتے ہیں، جو ان کی عمر اور عقل کے اعتبار سے قطعاً مناسب نہیں۔

مکر ر سہ کر ر سمجھا نا

اگر کوئی مسئلہ ایسا ہو جس کو طلبہ و طالبات ایک مرتبہ بتانے اور سمجھانے سے بآسانی نہ سمجھ سکتے ہوں تو انھیں وہ مسئلہ مکرر سہ کرر سمجھا نا چاہئے، تا کہ طلبہ اسے اچھی طرح سمجھ سکیں ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بیان کرتے ہیں :

’’ أَنَّهُ كَانَ إِذَا تَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ أَعَادَهَا ثَلاَثًا حَتَّى تُفْهَمَ عَنْهُ ، وَإِذَا أَتَى عَلَى قَوْمٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ سَلَّمَ عَلَيْهِمْ ‘‘ (بخاری:۱؍۱۸۸ مع الفتح)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب لوگوں سے گفتگو فرماتے اور کوئی بات کہتے تواس کو تین مرتبہ دہراتے یہاں تک کہ وہ بات اچھی طرح لوگوں کے سمجھ میں آجاتی ۔اور جب کسی قوم کے پاس آتے تو سلام کرتے اور تین مرتبہ ان سے سلام کرتے ۔

اساتذہ و معلّمات کو چاہئے کہ درس کے اعادہ اورمکرر سہ کرر سمجھانے میں اس کی حاجت و ضرورت کا ضرورلحاظ کریں ،ایسا نہ ہو کہ بالکل آسان اور عام فہم مسائل کو بلاضرورت مکرر سہ کرر سمجھائیں ۔ اساتذہ کرام کو معلوم ہے کہ کچھ طلبہ کم پڑھنے اور امتحان میں محنت سے بچنے کے لئے جھوٹ بولتے اور بلاوجہ یہ کہتے رہتے ہیں کہ استاذ ! یہ سبق پھر سے سمجھائیے ،ہم لوگوں کی سمجھ میں نہیں آیا ہے، ایسے طلبہ سے ہوشیار رہیں اور بلاوجہ درس کے اعادہ و تکرار سے بچیں۔

پریکٹیکل کر کے  سمجھانا

کچھ مسائل اور چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ جب تک ان کو عملی طور سے کر کے نہ دکھایا جائے طلبہ کی سمجھ میں نہیں آتیں ،ایسی چیزوں کو عملی طور سے(پریکٹیکل) کر کے دکھا نا چاہئے ،کتاب و سنت میں اس کی کئی نظیر موجود ہیں ،مثال کے طور پر جب نماز کی فرضیت نازل ہوئی توحضرت جبریل علىہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو روز باقاعدہ نماز پڑھ کر دکھایا، پہلے روز اول وقت میں، اور دوسرے روز آخروقت میں ، اور پھر فرمایا:

’’ وَالْوَقْتُ فِيمَا بَيْنَ هَذَيْنِ الْوَقْتَيْنِ ‘‘

اور وقت ان دونوں وقتوں کے در میا ن ہے۔

(سنن أبي داود محقق وبتعليق الألباني: 1/ 150 , سنن الترمذي: 1/ 278 , المستدرك على الصحيحين للحاكم : 1/ 306)

خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی صحابہ کرام کو نماز پڑھ کر دکھایا اور فرمایا: ’’صَلُّوْا کَمَا رَأيْتُمُو نِیْ اُصَلِّیْ‘‘(رواہ البخاری و احمد، انظر البخاری: ۱؍۱۱۱[۳۱ ۶ ] و مسند احمد :۵؍۵۳)

ایک مرتبہ آپ نے منبر پر نماز پڑھی اور جب سجدہ کرنا ہوا تو الٹے قدم نیچے اتر کر سجدہ کیا اور پھر منبر پر لوٹ آئے۔ اورنماز سے فراغت کے بعد لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا:’’ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا صَنَعْتُ هَذَا لِتَأْتَمُّوا وَلِتَعَلَّمُوا صَلاَتِي ‘‘ (البخاری:۲؍۳۹۷) اے لوگو! میں نے ایسا صرف اس لئے کیا تاکہ تم لوگ میری اقتداء کرو اور میری نماز سیکھ لو۔اسی طرح آپ نے حج بھی عملًا کر کے دکھا یا اور فرمایا: ’’ خُذُوا عَنِّي مَنَاسِكَكُمْ ‘‘(رواہ احمد: 3 / 318) تم لوگ مجھ سے مناسک حج سیکھ لو۔

آج بھی عربی مدارس میں نیچے کے درجات میں طلبہ سے عملی وضو کرایا جاتا،اور عملی نمازیں پڑھائی جاتیں ہیں ،اس واسطے کہ اگر ان طلبہ کو صرف زبانی وضوء کا طریقہ بتا دیا جائے تو کچھ بھی ان کے پلّے نہیں پڑے گا ،لیکن جب سامنے وضو کر کے انہیں دکھایا جاتاہے ،اور اپنے سامنے کھڑا کرکے باقاعدہ انہیں عملی نماز پڑھائی جاتی ہے، تو طلبہ وضو کا مکمل طریقہ اور نماز میں قیام، رکوع ، سجدہ، جلسہ ، تشہد وغیرہ تمام اعمال کا صحیح طریقہ سیکھ لیتے ہیں اور انہیں ساری دعائیں یاد ہو جاتیں ہیں۔

بہر حال جن چیزوں کی تعلیم و تفہیم کے لئے عملی طور سے کر کے دکھانا ضروری یا زیادہ مفید ہو انھیں عملی طور سے کر کے دکھانا چاہئے، عصری علوم کی تعلیم میں پریکٹیکل کی بڑی اہمیت ہے ، خاص طور سے سائنس اور طب میں۔مگر دینی علوم کی تعلیم میں بھی اس کی ضرورت پڑتی ہے، اور بوقت ضرورت اس کا لحاظ کرنا ضروری ہے۔

مثالوں کے ذریعہ سمجھانا

بہت سی باتیں اوراصول وقواعد مثالوں کے بغیر سمجھ میں نہیں آتے، اور کچھ باتیں ایسی ہو تی ہیں جو مثالوں سے بہت جلد سمجھ میں آجاتی ہیں، اور بغیر مثال کے سمجھانے میں دیرلگتی اور پر یشا نی ہوتی ہے، ایسی باتوں کومثالوں کے ذریعہ سمجھانا چاہئے ، کتاب وسنت میں اس کی بہت سی مثا لیں مو جود ہیں ۔

مثلاً اللہ تعالیٰ نے فرمایا: مَثَلُهُمْ کَمَثَلِ الَّذِیْ اسْتَوْقَدَ نَاراً فَلَمَّا أَضَاء تْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللّهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَکَهُمْ فِیْ ظُلُمَاتٍ لاَّ يُبْصِرُونَ  (البقرة: ١٧) ۔ ان لوگوں کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی ،پھر جب اس کے آس پاس کی چیزیں روشنی میں آگئیں تو اللہ نے ان کے نور کوچھین لیا اور انھیں اندھیرے میں چھوڑ دیا ،جو دیکھتے نہیں۔

اس میں اللہ نے ان لوگوں کے بارے میں جو پہلے تو مسلمان ہوئے ،لیکن پھر جلدہی منافق ہو گئے، بتایا کہ ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو اندھیرے میں تھا، پھر اس نے روشنی جلائی جس سے اس کا ماحول روشن ہو گیا اور مفید اور نقصان دہ چیزیں اس پر واضح ہو گئیں ، پھردفعتًا وہ روشنی بجھ گئی، اور وہ حسب سابق تاریکیوں میں گھر گیا، یہ منافقین بھی پہلے شرک کی تاریکی میں تھے ،پھر مسلمان ہوئے تو ایمان کی روشنی میں آگئے، اور حلال و حرام اور خیر و شر کو پہچان گئے ،پھر دوبارہ نفاق کی جانب لوٹ گئے تو ساری روشنی جاتی رہی ۔ (فتح القدیر)

ایک دوسری جگہ فرمایا : مَّثَلُ الَّذِيْنَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِيْلِ اللّهِ کَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنبُلَةٍ مِّئَةُ حَبَّةٍ وَاللّهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ وَالله وَاسِعٌ عَلِيْمٌ  (البقرة: ٢٦١

جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کے خرچ کئے ہوئے مال کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں ،اور ہر بالی میں سو دانے ہوں،اور اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے بڑھا چڑھا کر دیتاہے،اور اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی باتوں کو سمجھانے كے لئے مثالوں کا استعمال کیا ہے، مثلاً آپ نے فرمایا:’’ مَثَلُ الْمُؤْمِنِينَ فِى تَوَادِّهِمْ وَتَرَاحُمِهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى ‘‘(صحيح البخاري حسب ترقيم فتح الباري : 8/ 12 , صحيح مسلم : 8/ 20)۔  مومنوں کی مثال آپسی لطف و محبت اور رحم دلی میں ایک جسم کے مانند ہے کہ اس کے کسی بھی عضومیں تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم بخار،درد اور جاگنے میں برابر شریک ہوتا ہے ۔

اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے باہمی ربط اور محبت و تعلق کو ایک مثال کے ذریعہ سمجھایا ہے کہ مسلم معاشرہ ایک جسم کی طرح ہے، جیسے جسم کے کسی ایک عضو میں بیماری اور تکلیف ہو تو پورا جسم تکلیف میں شریک ہوتا ہے، ایسے ہی اگر کسی مسلمان کو تکلیف ہو تو اس تکلیف میں سارے مسلمانوں کو شریک ہونا چاہئے ۔

ایک حدیث میں آپ نے فرمایا:’’ مَثَلُ الْمُؤْمِنِ الَّذِى يَقْرَأُ الْقُرْآنَ مَثَلُ الأُتْرُجَّةِ رِيحُهَا طَيِّبٌ وَطَعْمُهَا طَيِّبٌ وَمَثَلُ الْمُؤْمِنِ الَّذِى لاَ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ التَّمْرَةِ طَعْمُهَا طَيِّبٌ وَلاَ رِيحَ لَهَا وَمَثَلُ الْفَاجِرِ الَّذِى يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ الرَّيْحَانَةِ رِيحُهَا طَيِّبٌ وَطَعْمُهَا مُرٌّ وَمَثَلُ الْفَاجِرِ الَّذِى لاَ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ الْحَنْظَلَةِ طَعْمُهَا مُرٌّ وَلاَ رِيحَ لَهَا وَمَثَلُ الْجَلِيسِ الصَّالِحِ كَمَثَلِ صَاحِبِ الْمِسْكِ إِنْ لَمْ يُصِبْكَ مِنْهُ شَىْءٌ أَصَابَكَ مِنْ رِيحِهِ وَمَثَلُ جَلِيسِ السُّوءِ كَمَثَلِ صَاحِبِ الْكِيرِ إِنْ لَمْ يُصِبْكَ مِنْ سَوَادِهِ أَصَابَكَ مِنْ دُخَانِهِ ‘‘ (سنن أبي داود محقق وبتعليق الألباني : 4/ 406)

اس مومن کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے اترجہ (سنترے کے مانند ایک خوش ذائقہ اور خوشبو دار پھل)کی مانند ہے ،جس کی بو بھی اچھی ہو تی ہے اور ذائقہ بھی اچھا ہوتا ہے ۔اور اس مومن کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا کھجور کی طرح ہے، جس کا ذائقہ اچھا ہو تا ہے ، مگر اس میں کوئی خوشبو نہیں ہوتی۔ اور اس فاجر کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے، ریحانہ(ایک خوشبو دار پھل) کی مانند ہے، جس کی بو اچھی ہو تی ہے، مگرذائقہ کڑوا ہو تا ہے ،اور اس فاجر کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا، اندرائن کی مانند ہے، جس کا ذائقہ بھی کڑوا ہوتا ہے، اور اس میں کوئی بو بھی نہیں ہوتی ۔اچھے ساتھی کی مثال مسک والے کی مانند ہے  اگر تمہیں اس میں سے کچھ نہیں لگے گا توخوشبو ضرور ملے گی،  برے ساتھی کی مثال بھٹی والے(لوہار وغیرہ) کی مانند ہے ،اگر تمہیں اس کی سیاہی نہ لگے، تو اس کا دھواں تو ضرور لگے گا۔

اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن اور فاجر اور ان کے قرآن پڑھنے اور نہ پڑھنے کے عمل کے اثرات کو محسوس چیزوں سے تشبیہ دے کر بہت زیادہ آسان قابل فہم اور اثر انگیز بنادیا ہے،اسی طرح برے ساتھی کو لوہار سے تشبیہ دے کر یہ واضح فرمایا ہے کہ جس طرح لوہار کے پاس بیٹھنے والا اگر اس کے کوئلے کی سیاہی اورآگ کی چنگاریوں سے بچ بھی جائے تو کم از کم اسے دھواں تو لگے گا ہی ۔ ا سی طرح برے شخص کی صحبت میں رہنے والے کو بھی اس کی وجہ سے کچھ نہ کچھ تکلیف اور نقصان ضرورپہونچے گا ۔اس واسطے بروں کی صحبت سے حتی الامکان دور رہنا چاہئے۔

اشارے کے ذریعہ سمجھانا

بعض اشیاء کا اشارے کے ذریعہ سمجھا نا آسان ہو تا ہے اور اس سے مخاطبین بات کو بڑی آسانی سے سمجھ لیتے ہیں، ایسی صورت میں اساتذہ کو تفہیم کے لئے اشارے کااستعمال کرنا چاہئے، جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سمجھانے کے لئے کہ قمری مہینہ کبھی انتیس دن کا ہو تا ہے اور کبھی تیس دن کا اشارے سے کام لیا، اور دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو پھیلا کر اشارہ کرتے ہوئے فر مایا : ’’الشَّهْرُ هٰکَذا وَ هٰکَذاوَ هٰکَذا‘‘۔ کبھی مہینہ اس طرح اور اس طرح اور اس طرح ہوتا ہے اور تیسری مرتبہ انگوٹھے کو موڑلیا ، پھر فرمایا: ’’الشَّهْرُ هٰکَذا وَ هٰکَذاوَ هٰکَذا ‘‘اور اس مرتبہ انگوٹھے کو نہیں موڑا، اس طرح آپ نے اشارہ فرمایا کہ مہینہ کبھی انتیس کا اور کبھی تیس کا ہو تا ہے ۔  (صحيح البخاري حسب ترقيم فتح الباري : 7/ 68 , صحيح مسلم: 3/ 123)

اسی طرح مسلمانو ں کے باہمی ربط و تعلق کو بتانے كے لئے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ إِنَّ الْمُؤْمِنَ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا ‘‘۔ مومن مومن کے لئے عمارت کی مانند ہے، جس کا ایک حصہ دوسرے حصے میں پیوست ہو کر اس کومضبوط کرتا ہے ۔

راوی حدیث حضرت ابوموسیٰ اشعری رضى اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’ وَشَبَّكَ أَصَابِعَهُ ‘‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر جال بنا کر دکھایا۔ (صحيح البخاري  حسب ترقيم فتح الباري : 1/ 129 , صحيح مسلم : 8/ 20)

اورحضرت سہل بن سعد الساعدی رضى اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ أَنَا وَكَافِلُ الْيَتِيمِ فِي الْجَنَّةِ هَكَذَا وَأَشَارَ بِالسَّبَّابَةِ وَالْوُسْطَى ‘‘(صحيح البخاري حسب ترقيم فتح الباري :  7/ 68) میں اور یتیم کی کفاکت کرنے والا جنت میں ان دونوں انگلیوں کی طرح ہوں گے ۔اور یہ کہتے ہوئے آپ نے درمیانی اور شہادت والی انگلی سے اشارہ کیا۔

ایک بار سفیان بن عبد اللہ رضى اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ: اللہ کے رسول یہ ارشاد فرمائیے کہ آپ کی نظر میں میرے لئے کون سی چیز سب سے زیادہ خطرناک ہے ؟آپ نے اپنی زبان کو پکڑ کر فرمایا:یہ۔(رواه الترمذي :  4/ 607 وصححہ)

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر جواب میں ’’یہ‘‘ کہہ کرجہاں اس بات کی جانب اشارہ فرمایا کہ زبان کے استعمال میں بے احتیاطی سب سے خطر ناک امر ہے وہیں آپ نے زبان کو پکڑ کر اس بات کی جانب بھی اشارہ کردیا کہ زبان پر گرفت ہونا اور اس کو اپنے قابو میں رکھنا ضروری ہے ۔

در اصل بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جنھیں لوگ اشارے سے بڑی آسانی کے ساتھ سمجھ جاتے ہیں اور صرف زبان سے کہنے سے یا تو اسے دیر میں سمجھتے ہیں یا سمجھ ہی نہیں پاتے ہیں ، ایسے مواقع پر تفہیم کے لئے اشاروں کا استعمال کرنا زیادہ مناسب اوربہتر یا ضروری ہو تا ہے۔ بہر حال تعلیم و تربیت کا کام کرنے والوں کو چاہئے کہ اپنی باتوں کو اچھی طرح سمجھانے اور واضح کرنے کے لئے حسب ضرورت اشاروں سے بھی مدد لیں۔

نقشہ بنا کر یا لکیریں کھینچ کر سمجھانا

بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو نقشہ بنا کر یا لکیروں سے اس کی شکل بنا کر دکھانے اور سمجھا نے سے مخاطبین کوفورا سمجھ میں آجاتی ہیں،اور اگر ویسے سمجھایا جائے تو سمجھ میں نہیں آتیں ۔ ایسی چیزو ں کونقشہ کے ذریعہ یا خطوط کھینچ کر سمجھانا چاہئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی حسب ضرورت ا یسا کیا کرتے تھے ۔ حضرت جابر بن عبد اللہ رضى اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے ، آپ نے ایک سیدھی لکیر کھینچی ،پھر اسکے دائیں جانب دو لکیریں اوربائیں جانب دو لکیریں کھینچیں ،پھر درمیان والی لکیر پر اپنا ہاتھ رکھا اور فر مایا: یہ اللہ کا راستہ ہے ،پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی:  وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِيْماً فَاتَّبِعُوهُ وَلاَ تَتَّبِعُواْ السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَن سَبِيْلِهِ  الأنعام: ١٥٣  (رواہ ابن ماجہ: ۱؍۲۴)۔یہی میرا سیدھا راستہ ہے پس تم اسی کو اختیار کرو اور دوسرے راستوں کواختیار نہ کرو اس لئے کہ وہ تم کو اس کے راستے سے ہٹاکر متفرق کردیں گے۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے ایک خط کھینچا اور فرمایا کہ یہ اللہ کا راستہ ہے، پھر چند خطوط اس کے دائیں اور بائیں جانب کھینچے، پھر فرمایا کہ یہ ایسے راستے ہیں جن میں سے ہر ایک پر شیطان ہے اور جو اپنی جانب بلاتا ہے ۔پھر آیت کریمہ: وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِيْماً فَاتَّبِعُوهُ وَلاَ تَتَّبِعُواْ السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَن سَبِيْلِهِ  کی تلاوت فرمائی ۔(مسند احمد:۱؍۴۳۵،۴۶۵)

پہلی روایت کے مطابق


 دوسری روایت کے مطابق

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطوط کھنچ کر آیت کریمہ اور اللہ کی راہ’’ صراط مستقیم ‘‘کی تشریح کس قدر عام فہم انداز میں فرمائی، جس سے صحابہ کرام رضى الله عنہم کے ذہنوں میں یہ بات بڑی آسانی سے جا گزیں ہو گئی کہ اللہ کا سیدھا راستہ صرف ایک ہے اور باقی تمام راستے شیطانوں اور گمراہی وضلالت کے ہیں۔

ایک دوسری روایت میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں سمجھانے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مربع نما شکل بنائی ۔ اور اس کے بیچ سے باہر نکلتا ہوا ایک خط کھینچا اور اس درمیانی خط سے ملا کر چھوٹے چھوٹے خطوط کھینچے ۔پھر مربع کے درمیان میں انگلی رکھ کر فرمایا:یہ انسان ہے اور مربع بنانے والے خطوط اس کی موت ہیں اور یہ چھوٹے چھوٹے خطوط حوادث و مصائب ہیں جو انسان پر حملہ کرتے رہتے ہیں۔اگر ان کا نشانہ چوک جاتا ہے تواجل آلیتا ہے ،اور مربع سے باہر نکلتا ہوا جو خط ہے وہ انسان کی آرزو اور تمنا ہے ۔جہاں تک آدمی کبھی نہیں پہنچ پاتا۔

 حافظ ابن حجر  رحمہ الله نے فتح الباری(۱۱؍۲۳۷)میں مختلف محدثین کرام کی بنائی ہوئی شکلیں نقل کی ہیں اور اس شکل کو سب سے زیادہ معتمد قرار دیا ہے۔

اس خاکہ کی مدد سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات واضح فرمائی کہ انسان اور اس کی آرزؤوں کے درمیان حادثات اور مصائب حائل ہیں، پھر موت چاروں طرف سے انسان کو گھیرے ہوئے ہے، جس سے کوئی راہ فرار نہیں ۔اورانسان کو کتنی بھی طویل زندگی کیوں نہ ملے اس کی آزوئیں ادھوری رہ جاتی ہیں، اور کوئی بھی انسان زندگی میں اپنی تمام تمناؤں کی تکمیل نہیں کر پاتا۔(انظر صحیح البخاری مع الفتح:۱۱؍۲۳۵۔۲۳۷، سنن ابن ماجہ:۲؍۱۴۱۴،رسول خدا کا طریق تربیت ص ۴۶،۴۹)

تختۂ سیاہ کا استعمال کرنا

اساتذہ و معلّمات کو ضرورت کے مطابق طلبہ کو سمجھانے كے لئے کبھی کبھی تختۂ سیاہ (بلیک بو ر ڈ ) کا بھی استعمال کرنا چاہئے ،کچھ باتوں کا املا کرانا چاہئے، اور کچھ چیزیں لکھ کر بتانا چاہئے، اور جو با تیں اہم اور ضروری ہوں انھیں ضرور لکھانا چاہئے ،تا کہ وہ طلبہ کے پاس محفوظ رہیں،کیونکہ کہا جا تا ہے ’’الذھن خوّان‘‘ یعنی ذہن بہت خیانت کرنے والا ہے، بہت ساری باتوں کے بارے میں آ دمی سوچتا ہے کہ یہ ہمیشہ یاد رہیں گی مگر حافظہ خیا نت کرجاتا ہے اور وہ باتیں ذہن سے نکل جاتی ہیں ۔

خاص طور سے چھوٹے بچوں كے لئے ضروری باتیں بلیک بورڈ پر ضرورلکھ دینا چاہئے، تا کہ وہ دیکھ کر صحیح صحیح اپنی کا پیوں پر نقل کر لیں اور ان کے پاس محفوظ رہیں،اور ساتھ ہی بچوں کولکھنے کی اہمیت بھی بتانا چا ہئے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جب انبیاء علیہم السلام  پر اپنے کلام کو نازل فرمایا، تو صرف انبیا ء علیہم السلام کی زبانی ان کی تبلیغ پر اکتفاء نہیں کیا ، بلکہ انھیں کتابی شکل میں بھی عنایت فر ما یاتاکہ وہ محفوظ رہیں اور لوگ مقررہ مدت تک ان سے استفادہ کرتے رہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی قرآن کریم کی حفاظت كے لئے کاتبین وحی کو مقرر فرمایا ۔جو آپ پرنازل ہونے والی سورتوں اورآیتوں کو آپ کی ہدایت کے مطابق مصحف میں لکھتے تھے، فتح مکہ کے سال قبیلہ خزاعہ کے لوگوں نے بنی لیث کے ایک شخص کو قتل کردیا، جب اس واقعہ کی اطلاع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی تو آپ نے اپنی سواری پر سوار ہوکر ایک عظیم الشان خطبہ دیا جس میں حرم کی عظمت وحرمت اور اس کے آداب کی تفصیل اور قتل میں قصاص ودیت کے احکام کو بیان فرمایا، جب آپ خطبہ سے فارغ ہوئے تو یمن کے ایک صحابی ابو شاہ رضى اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول مجھے یہ خطبہ لکھوا دیجئے ۔آپ نے صحابہ کرام رضى الله عنہم کو ابو شاہ كے لئے یہ خطبہ لکھ کر دینے کا حکم دیا ۔ اور فر مایا : ’’ اُکْتُبُوْا لِأبِيْ شَاهْ‘‘ابو شاہ کے لئے لکھ دو۔(صحيح البخاري مع فتح الباري : 3/ 165)

ان سب سے معلوم ہوتا ہے کہ تحریر کا تعلیم و تبلیغ میں بڑا دخل اور اس کی بڑی اہمیت ہے ، اس واسطے طلبہ ا وراساتذہ کواہم اہم مسائل کے لکھنے لکھانے کا اہتمام کرنا چاہئے اور فرائض اور ریاضی وغیرہ کے مسائل کی تفہیم کے لئے بلیک بورڈ کا استعمال ضرور کرنا چاہئے۔

Print Friendly and PDF

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی

Post Add 1

Post Add 2