Header Add

اقوالِ زریں - فرامینِ حضرت علی علیہ السلام

Print Friendly and PDF

اقوالِ زریں -  فرامینِ حضرت علی علیہ السلام

اقوالِ زریں

فرامینِ حضرت علی علیہ السلام

 اپنی زندگی میں ہر کسی سے اچھی طرح پیش آؤ۔ جو اچھا ہوگا وہ دعا دے گا اور جو بڑا ہوگا وہ سبق۔
اک نعمت کا شکراداکرنادوسری نعمت ملنے کا ذریعہ ہے۔
اگر کوئی آپ کو اچھا لگتا ہے تو اچھا وہ نہیں آپ ہیں جو اُس میں اچھائی تلاش کرتے ہیں۔اگر کوئی آپ کوبُڑا لگتا ہے توبُڑا وہ نہیں آپ ہیں جو اُس میں بڑائی تلاش کرتے ہیں۔
اگرخوش رہنا چاہتے ہو تو دو باتیں بھول جاؤ۔ وہ بڑا سلوک جو دوسروں نے تم سے کیا ہے اور وہ اچھا سلوک جو تم نے لوگوں سے کیا ہے۔
انسان تب سمجھدارنہیں ہوتا جب وہ بڑی بڑی باتیں کرتا ہے بلکہ اُس وقت سمجھدار ہوتا ہے جب چھوٹی چھوٹی باتیں سمجھنے لگ جاتا ہے۔
انسان کو اچھی سوچ پے وہ انعام مل سکتا ہے جو اسے اچھے اعمال پے نہیں مل سکتا کیونکہ ہوسکتا ہے کہ اعمال مین دِکھاوا ہو لیکن اچھی سوچ میں دِکھاوا نہیں ہوسکتا۔
ایمان جب اپنی جڑیں مضبوط کر لیتا ہے تو بڑائی کرنا مشکل اور نیکی کرنا آسان وجاتا ہے۔
بے شک زندگی تھکادینے والی چیز ہے اور جب تم تھک جاؤ تو اپنے رب کا ذکر کیا کرو کیونکہ سکون صرف اللہ کے ذکر میں ہی ہے۔
جب آپ سکون کی کمی محسوس کریں تو اپنے رب سے توبہ کرلیں کیونکہ یہ آپ کے گناہ ہی ہوتے ہیں جو دلوں کو بے چین کردیتے ہیں۔
جب تمہاڑا دل گناہ کے کاموں میں لگ جائے تو سمجھ جاؤ کہ تمہاڑا رب تم سے ناراض ہے۔
جس انسان کو اللہ پاک کے ہر کام میں حکمت ہونے کی سمجھ آجائے تو وہ زندگی میں کسی بھی واقعہ  پر شکوہ نہین کرتا، صرف تسلیم اور رضا کرتا ہے، مصیبتوں کا مقابلہ صبر سیاور نعمتوں کی حٖاظت شکر سے کرتا ہے۔
جو انسان جتنا خاموش رہتا ہے وہ اتنا ہی محفوظ رہتا ہے۔
خلوصِ دل کے ساتھ اللہ کا شکر ادا کرکے تم اپنے قلیل رزق کو کثیر کرسکتے ہو۔
خواہشیات بادشاہوں کو غلام بنا دیتی ہیں لیکن صبر غلاموں کو بادشاہ۔
دل میں حسد پیداکرنا ہے تو اپنے سے اوپر والوں کو دیکھواور اگر شکر پیدا کرنا ہے توخود سے نیچے والوں کو دیکھوکہ وہ کیسے زندگی گزار رہے ہیں۔
دُنیا  سے محبت کرنے والا دُنیا کا غلام ہوجاتا ہے اور اللہ سے محبت کرنے والے کی دُنیا غلام ہوجاتی ہے۔
دُنیا  کے اندر دین نہیں بلکہ دین کے اندر دُنیا ہے۔
دُنیا کی بہت ساری مشکلات اُس وقت ختم ہوجاتی ہیں جب ہم ایک دوسرے کی باتیں کرنے کی بجائے ایک دوسرے سے باتیں کریں۔
دُنیا میں رہنے کے لئے دو جگہ سب سے بہترین ہیں۔ ایک کسی کے دل میں اور دوسرا لوگوں کی دعاؤں میں۔
رشتے سچے ہوں تو زیادہ سنبھالنے نہیں پڑتے۔ جن رشتوں کو زیادہ سنبھالنا پڑے وہ سچے نہیں ہوتے۔
زندگی میں اگر کوئی پوچھے کہ کیا کھویااور کیا پایا تو بلا جھجک کہ دو! میں نے جو پایا وہ میرے رب کی مہربانی اور جو کھویا وہ میری نادانی۔
زندگی میں اگربڑا وقت نہ آتا تو اپنوں میں چھپے غیر اور غیروں میں چھپے اپنے کبھی بے نقاب نہ ہوتے۔
صبر سے اللہ کی رحمت کا انتظار کرو۔جو چیز تمہار ے لئے ہے وہ صرف تمہارے ہی لئے ہے۔بس دیر سے آنا کسی حکمت کی وجہ سے ہوتا ہے اور اُس کی حکمت بے شک تمہاڑی سمجھ سے باہر ہے۔
طاقت کی ضرورت تبھی ہوتی ہے جب کچھ بُرا کرنا ہوورنہ دُنیا میں سب کچھ پانے کے لئے صرف اخلاق ہی کافی ہے۔
کسی کو اتنا پیار دو کہ کوئی گنجائش نہ چھوڑو۔اگر وہ پھر بھی تمہاڑا نہ بن سکے تو اُسے چھوڑ دو۔وہ محبت کا طلب گار ہی نہیں۔ وہ صرف ضرورت کا پجاری ہے۔
کسی کے پاس کھانے کے لئے ایک وقت کی روٹی نہیں اور کسی کے پاس روٹی کھانے کے لئے وقت ہی نہیں۔کوئی اپنوں کے لئے روٹی چھوڑ دیتا ہے کوئی روٹی کے لئے اپنوں کو چھوڑ دیتا ہے۔ایک وقت تھا کہ لڑنا، جھگڑنااورمنانا روز کاکام تھا۔ آج ایک دفعہ لڑتے ہیں تو رشتے ہی ٹوٹ جاتے ہیں۔ پہلے ہم دوستوں کے ساتھ رہتے تھے آج دوستوں کی یادیں ہمارے ساتھ رہتی ہیں۔ کبھی چھوٹی سی چوٹ لگنے پر روتے تھے آج دل ٹونے پر بھی سنبھل جاتے ہیں۔سچ دُنیا نے ہمیں بہت کچھ سکھا دیا۔ یہ دُنیا بھی کتنی عجیب ہے۔کبھی وقت ملے توآپ بھی سوچئے گا۔
گناہ پر طبیت خود چاہتی ہے لیکن نیکی کی طرف طبیت کو لانا پڑتاہے۔آج عمل ہے کوئی حساب نہیں۔ کل حساب ہو گا کوئی عمل نہیں۔آج آنسوکاایک قطرہ دوزخ کی آگ کے سمندر کو بجھا سکتا ہے۔ کل آنسوؤں کا سمندر دوزخ کی ایک چنگاڑی کو نہیں بجھا پائے گا۔
گناہ گار اور فاسق لوگوں میں بیٹھوں گے تو گناہوں پر دلیر ہوجاؤ گے۔عورتوں میں بیٹھوں گے توغیبت میں مبتلاء ہو جاؤ گے۔بچوں میں بیٹھوں گے تو غیر سنجیدگی سیکھو گے۔بادشاہوں، امراء اور وزیروں کی مجلس اختیار کرو گے تو تکبر اور ظلم پیدا ہوگا۔تم کو چاہیے کہ فقراء کی مجلس اختیار کرو۔ اسی سے تمہارے اندر عاجزی پیداہوگی جو کہ تمہارے رب کو بہت پسند ہے۔
اللہ سے ہمیشہ وہ طلب کرو جو تمہاڑے حق میں بہتر ہوناکہ وہ جو تم چاہتے ہو۔ ہوسکتا ہے کہ تمہاڑی چاہت بہت کم ہواور تمہاڑا حق بہت زیادہ۔
نفس وہ بھوکا کتا ہے جو اُس وقت تک بھونکتا ہے جب تک انسان سے غلط کام کروا نہیں لیتا۔جب انسان غلط کام کرلیتا ہے تو یہ ”کتا“ سو جاتا ہے لیکن سونے سے پہلے ”ضمیر“ کو جگاجاتاہے۔
ہمارالباس کبھی کیسا کبھی کیسا جبکہ ہماراکفن ایک جیسا۔ ہمارا گھر ۰۰۴ گزکا لیکن ہمارا اصل گھر۵۔۲گزکا۔ہمارے ادادے دو سو سال کے مگر ہماری زندگی ایک سوالیہ نشان۔پیدائش کے وقت آذان دی جاتی ہے نماز نہیں ہوتی جبکہ موت کے وقت نماز ہوتی ہے آذان نہیں۔زندگی کیا ہے! بس آذان اورنماز کا درمیانی وقفہ۔ ذرا سوچیں۔       
یقین کی پختگی اور اخلاق کاحسن جس انسان میں آ جائے وہ ایک ہی وقت میں ”خالق اور مخلوق“ کا محبوب بن جاتا ہے۔
Print Friendly and PDF

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی

Post Add 1

Post Add 2