Header Add

بچوں کی تربیت میں حکیم لقمان کے ارشادات

Print Friendly and PDF

بچوں کی تربیت میں  حکیم لقمان کے ارشادات

بچوں کے لئے عادات کا چارٹ بنانے کے لئے آپ "بچوں کی تربیت میں  حکیم لقمان کے ارشادات " کی معاونت لے سکتے ہیں۔ یہ  اخلاقیات کے عالمگیر  قوانین  کی کسوٹی پر پورا اترتے ہیں  اور کسی بھی زمانے یا ں مذہب کے لوگوں کی ضرورت کو پورا کرتے ہیں جو اپنے بچوں کی بہترین  تربیت کے متمنی ہیں۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔

اور اُس وقت کا ذکر کیجئے جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ اے بیٹے! اللہ کا شریک نہ ٹھہرانا ،بے شک شرک بڑا بھاری ظلم ہے۔

اے میرے بیٹے!

اگر کوئی عمل رائی کے دانے کے برابر ہو (تو بھی اسے معمولی نہ سمجھنا،وہ عمل ) کسی پتھر میں ہو یا آسمانوں میں ہویا پھر زمین کے اندر(زمین کی تہہ میں چھپا ہوا ہو ) اللہ تبارک وتعالیٰ اسے ظاہر کردے گا۔ بے شک اللہ تعالیٰ بڑا باریک بین وباخبر ہے۔

اے میرے بیٹے! نماز قائم کرو ،اور اچھے کاموں کی نصیحت کیا کرو ،اور برے کاموں سے منع کیا کرو،اور جو کچھ پیش آئے اس پر صبر کیا کرو،بے شک یہ(صبر) ہمت کے کاموں میں سے ہے ،اور لوگوں سے بے رخی مت اپناؤ،اور زمین پر تکبر سے مت چلو(کیونکہ) بے شک اللہ تعالیٰ کسی متکبر کو پسند نہیں فرماتے ،اور اپنی چال میں میانہ روی اختیا رکرو،اور اپنی آواز کو پست رکھو ،بے شک سب سے بری آواز گدھے کی ہے۔

(سورۃ لقمان ،آیت نمبر12 اور 16 تا 19 )۔

حکیم لقمان کی اس نصیحت  میں سے ہم اخلاقی قدروں کو اخذ کرتے ہیں اور ہر ایک کا جائزہ لیتے ہیں کہ اس کا بچے کی شخصیت پر کیا اثر ہوتا ہے۔

1.     اللہ کا شریک ٹھہرانا  سب سے بھاری ظلم ہے۔

2.     کوئی  بھی عمل نہ تو چھوٹا نہیں ہوتا۔

3.     نماز قائم کرو ۔

4.     اچھے کاموں کی نصیحت کیا کرو اور برے کاموں سے منع کیا کرو۔

5.     مصائب پر صبر کیا کرو۔

6.     لوگوں سے بے رخی مت اپناؤ۔

7.     زمین پر تکبر سے مت چلو۔

8.     اپنی آواز کو پست رکھو۔

بچوں کے تربیتی عمل میں کسی بھی عادت یا ردِ عمل کو معمولی نہ سمجھیں۔ بچہ سب سے پہلے کوئی شے دیکھے گا، پھر اس کو سوچے گا ، یہ سوچ  بچے کے عمل کا روپ دھارے گی۔ عمل  کی تکرار عادت بن جائے گی اور عادات کی تکرار آپ کے لاشعور میں جا کر چپک جائے گی جو کہ انسانی عادات کو خودکار طریقے سے کنٹرول کرتی ہے۔

میں یہاں آپ کو ایک مثال دیکر سمجھاتا ہوں۔ قتل کرنا اور چغلی کرنا دونوں کا شمار گناہانِ کبیرہ میں ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے تربیتی عمل میں دونوں کے متعلق ردِ عمل مختلف  ہے۔   اگر کوی قتل کرتا ہے تو فوراً گرفتار کرلیا جاتا ہے لیکن چغلی کھانے پر آج تک کسی کی گرفتاری ہوئی ہے؟ اسی لئے  ہمارا لاشعور  دونوں جرائم کے متعلق کوڈنگ میں فرق  رکھتا ہے۔ لاشعورعادت کی اچھائی یاں بڑائی کے متعلق نہیں  اُلجھتا۔ اس کو صرف غرض اس بات سے ہے کہ مخصوص اعمال کے متعلق آپ کا ردِ عمل کیا ہے۔ اسی ردِعمل کے مطابق وہ ایک فیصلہ کرتا ہے اور اسے اپنی کوڈنگ کے عمل میں محفوظ کر لیتا ہے۔ یہ کوڈنگ آپ کے روزمرہ معاملات کو خودکار طریقہ سے کنٹرول کرتی ہے۔ اسی لئے لوگ چغلی کھانا ٰمعمولی سمجھتے ہیں اور قتل کرنا بہت قبیع اورخطرناک عمل سمجھا جاتا ہے۔

انسان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو ، عبادات  زندگی میں ایک توازن قائم کرتی ہیں۔ اس سے اعصاب پر سکون ہوجاتے ہیں، روزمرہ زندگی میں نظم و ضبط اور ترتیب پیدا ہوتی ہے،  منفی خیالات دور ہوجاتے ہیں، ذہن یکسو ہو جاتا ہے۔لہذا اگر آپ مسلمان ہیں تو بچوں کو نماز کاپابند بنائیں اور غیر مسلم ہیں تو اپنے مذہب کے مطابق عبادات کو اپنے معمولات میں شامل کریں۔

غم اورخوشی زندگی کا ناگزیر حصہ ہے۔ اگر آپ بچوں کو شروع سے ہی مصائب پر صبر کرنے کی عادت ڈال دیں گے تو وہ مستقبل  میں آنے والے حادثات کو آسانی سے سہ جائیں گے۔ دنیا میں 264 ملین سے زیادہ افراد ڈیپریشن  کا شکار ہیں  جو کہ معذوری کی ایک اہم وجہ ہے۔  ولڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ادادوشمار کے مطابق  ہر سال 800،000 کے قریب افراد خودکشی کی وجہ سے ہلاک ہوجاتے ہیں یعنی ہر 40 سیکنڈ کے اندر  ایک شخص موت کو اپنے گلے لگا لیتا ہے۔ خود کشی سے مرنے والے تمام لوگوں میں 50 فیصد سے زیادہ افراد ذہنی دباؤ کا شکار  ہوتے ہیں۔

آپ نے کبھی اس بات پر غور کیا ہے کہ مردہ کو زمین میں دفن کیوں کردیتے ہیں یاں پھر اس کو جلایا کیوں جاتا ہے۔   کسی کا انتہائی قریبی عزیز جس کے بغیر وہ زندگی کا ایک بھی دن گزارنا  سوچ بھی نہیں سکتا، اس کی موت کے بعد اُسے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر اُسے قبر کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔

کیا اس لئے کہ  مردہ میں سے بدبو آنا شروع ہوجاتی ہے یاں اس لئے کہ آپ کے مذہب میں ایسا کرنے کا حکم ہے؟

میں اس سے متفق نہیں۔ ہمارا مذہب ہمیں بہت کچھ کرنے کا حکم دیتا ہے لیکن ہم اس کے پچاس فیصدی احکامات پر بھی عمل نہیں کرتے۔ میرے تجربہ میں کئی ایسے لوگ ہیں جو مرنے سے پہلے سالوں سال بیڈ پر بیمار پڑے رہتے ہیں۔جس کمرے میں وہ پڑے ہوتے ہیں، وہاں بدبو کی وجہ سے کھڑا نہیں ہوا جاتا۔

اصل حقیقت یہ ہوتی ہے کہ معاشرہ کو یہ احساس ہوجاتا ہے کہ مردہ اب کسی کام کا نہیں رہا۔گھر والوں کو بھی یہ یقین ہوتا ہے کہ اب مرحوم ان کے لئے مفید نہیں۔

آج میں آپ کو لوگوں کے دلوں میں زندہ رہنے کا بالکل ایک نیا فلسفہ دینے جارہا ہوں۔ اگر آپ نے زندہ لوگوں کے درمیان رہنا ہے تو ان کو قطعاً یہ احساس نہ ہونے دیں کہ آپ ان کے لئے مفید نہیں۔ آپ کی قدر اس وقت تک ہی ہے جب تک آپ لوگوں کے کام آتے رہیں گے۔ اگر آپ لوگوں کی نظر میں عزت چاہتے ہیں تو ان کو یہ احساس دلاتے رہیں کہ آپ ان کے لئے کس قدر مفید ہیں۔

لوگوں کو یہ احساس مت دلائیں کہ وہ آپ کے بغیر زندہ رہنا سیکھ جائیں۔اس دن آپ کی اپنی موت ہو گی۔ حکیم لقمان کی لوگوں سے بے رخی مت اپناؤوالی نصیحت میں اسی نقطے کو بیان کیا گیا ہے۔


 

Print Friendly and PDF

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی

Post Add 1

Post Add 2