Header Add

بچوں کی تربیت میں رسولِ کریمؐ کا طریقِ عمل

Print Friendly and PDF

بچوں کی تربیت میں رسولِ کریمؐ کا طریقِ عمل

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی اولاد عطا کی۔ لڑکے بھی اور لڑکیاں بھی۔ اور جو کچھ تربیت اور سلوک آپؐ نے اپنی اولاد سے کیا وہ کتبِ احادیث میں موجود ہے۔ اس میں سے مختصراً بطور اشارہ چند امور ذیل میں بیان کرتا ہوں۔

ابتداء سے بچہ کی تربیت

سب سے بڑی وجہ بچوں کے خراب ہونے کی یہ ہوتی ہے کہ ماں باپ بوجہ قدرتی محبت اور فطری پیار کے،جب تک بچہ نادانی کے عالم اور بے سمجھی کے زمانہ میں ہوتا ہے،اُس کی تربیت اور اخلاق کی درستی کی طرف توجہ نہیں کرتے اور نادانی کی حالت اور بے سمجھی کا زمانہ کہہ کر اسے معذور قرار دیتے ہیں۔ لیکن جب بدعادات راسخ ہو جاتی ہیں اور بُرائیوں کی جڑ مضبوطی سے بچے کے دل میں جگہ پکڑ لیتی ہے اور بچہ نادانی سے نکل کر سمجھ کے میدان میں قدم رکھتا ہےتواُس وقت والدین ان عادات کو دور کرنا چاہتے ہیں حالانکہ اُس وقت ان عادتوں کا دور کرنا ماں باپ کے اختیار کی بات نہیں رہتا کیونکہ جب بچہ سمجھدار ہو جائے تو وہ اپنی سمجھ سے کام لے کر ہی چھوڑنا چاہے تو چھوڑ سکتا ہے۔اس وقت ماں باپ کے فعل کا کوئی دخل نہیں رہتا۔

مباشرت کے وقت کی دعا

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ابتداء سے بچہ کی تربیت کی۔ اور نہ صرف خود کی بلکہ اپنی امت کو سکھایا کہ یوں تربیت کریں۔ آپؐ جب اپنی بیوی کے پاس جاتے تو فرماتے:

بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰھُمَّ جَنِّبْنَا الشَّیْطٰنَ وَ جَنِّبِ الشَّیْطٰنَ مَا رَزَقْتَنَا (بخاری کتاب الوضوء)

یعنی الٰہی! اگر اس فعل مباشرت سے تیرے علم میں ہمیں کوئی بچہ عطا ہونے والا ہے تو ہمیں اس وقت گندے شہوانی خیالات سے بچا اور تمام بُرائیوں کے خیالات سے ہمارے دل و دماغ کو محفوظ فرما تاکہ ہمارے اس وقت کے بُرے خیال کا اثر ہونے والے بچے کے دل و دماغ پر نہ پڑے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بچہ کی تربیت اُس وقت سے شروع کی جبکہ بچہ ابھی باپ کی صلب سے ماں کے رحم میں بھی نہیں گیا ہوتا۔ کیونکہ علم النفس کے ماہرین کی متفقہ شہادت سے یہ امر ثابت ہے کہ بچہ کے اخلاق پر ماں باپ کے خیالات اور جذبات کا بہت اثر ہوتا ہے۔ اگر مباشرت کے وقت اور ایامِ حمل میں ماں باپ میں بُرے جذبات جوش زن ہوں گے تو لامحالہ بچہ کے خیالات بھی بُرے ہوں گے اور اگر ان ایام میں ماں باپ کے خیالات میں تسکین اور صفائی ہو گی تو لازماً بچے کا دماغ تمام کدورتوں اور ناجائز جوشوں سے خالی ہو گا۔

بچہ کے پیدا ہونے پر

پھر جب بچہ پیدا ہوتا تھا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اُس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں تکبیر کہتے۔ یہ محض ایک رسم نہیں بلکہ باوجود اذان اور تکبیر کے الفاظ کے نہ سمجھنے کے بچہ لازماً ان کلمات طیبات کی پاکیزگی سے متاثر ہو گا اور اس کے دماغ پر ان کلمات کے پاکیزہ مفہوم کا پاک اثرساری عمرکے لئے قائم رہے گا۔

گھٹی دیتے وقت کی دعا

پیدائش کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پہلی خوراک یعنی گھٹی دیتے وقت برکت کی دعا کرتے۔ اور یہ نہایت ضروری اور بابرکت فعل ہے۔ کیونکہ خدا کے ہاں اس بزرگ تر خدا کی مدد کے بغیر کوئی تربیت اور کوئی اصلاح قائم نہیں ہو سکتی۔

بچہ کا عقیقہ

پھر ساتویں دن آپ عقیقہ کرتے اور بچہ کی طرف سے قربانی دیتے۔ اس کے سر کے بالوں کو تول کر ان کے ہم وزن چاندی صدقہ کر دیتے۔ اس سے یہ ظاہر کرتے کہ پیدا ہونے والے بچہ کے اخلاق کی تربیت لازمی ہے۔ محض اسے کھلانا پلانا اور آرام سے رکھنا ہی ضرروی نہیں۔ کیونکہ کھا پی کر تو یہ محض حیوان ہو گا اور اگر حیوان بنانا ہی مقصود ہوتا تو حیوان تو وہ جانور بھی تھا جو اس کے لئے قربان کر دیا گیا۔ پس جانور کی قربانی دے کر یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ ہم نے اس بچہ کو بااخلاق اور باخدا بنانا ہے۔ محض کھلا پلا کر موٹا کر کے دنبہ نہیں بنانا۔ اگر دُنبہ بنانا مقصود ہوتا تو ایک پلے پلائے دُنبہ کو اس ہفت روزہ بچے کے لئے کیوں ذبح کرایا جاتا۔ اس کی بجائے بچہ ہی کو ذبح کر کے دُنبہ کو کیوں نہ گھر میں باندھ لیا جاتا۔ پھر بالوں کے ہم وزن چاندی تول کر کیوں صدقہ کی جاتی ہے؟ یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ اس بچہ کی تعلیم و تربیت میں یہ مدنظر نہیں رکھا جائے گا کہ یہ بڑا ہو کر محض دنیا کمائے اور اس کی زندگی کا مقصود اس کے علم کا مَبْلَغ اور اس کی تمام محنتوں کا مرکز مال ہو۔ کیونکہ مال یعنی چاندی سونا تو ایسی حقیر چیزیں ہیں کہ اس کے بالوں، ہاں !کاٹ کر پھینک دیئے جانے والے بالوں کے برابر بھی نہیں۔ پھر یہ خود کس طرح محض سونے اور چاندی کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ اس کی پیدائش کی غرض تو خدا کا حصول اور اس کی تربیت کا مقصود دین اور روحانیت کا حاصل کرنا ہے۔

ختنہ

پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اسی روز لڑکوں کا ختنہ کرتے تا یہ ظاہر کریں کہ جس طرح بچہ کی باطنی پاکیزگی اور طہارت کا خیال رکھنا ماں باپ کا فرض ہے اسی طرح اس کے جسم کی درستی اور صحت کا خیال رکھنا بھی ان پر واجب ہے۔

ایام رضاعت میں صفائی کا خیال

پھر ایام رضاعت میں بعض لوگ بچوں کی ظاہری صفائی کا خیال نہیں کرتے۔ نہ ان کے باقاعدہ نہلانے کی طرف توجہ کرتے ہیں۔ حالانکہ ظاہر کا اثر باطن پر اور جسم کا اثر روح پر پڑتا ہے۔ علاوہ اس کے ساری عمر کے لئے ایسے بچے صفا ئی اور نہانے کے پابند نہیں رہتے۔ بلکہ بعض بچوں کو مٹی میں کھیل کھیل کر مٹی کھانے کی نہایت خطرناک اور مضر صحت عادت پڑ جاتی ہے۔ لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ایام رضاعت میں اپنے بچوں کی صفائی کا نہایت اہتمام سے خیال فرماتے۔ بخاری میں آتا ہے آپؐ اپنے صاحبزادہ ابراہیم کو دیکھنے کے لئے اس کی دایہ کے گھر تشریف لے جاتے اور بچہ کو منگا کر پیار کرتے اور اُسے سونگھتے۔ اس سونگھنے سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو صفائی کا کس قدر خیال تھا۔ ہو سکتا ہے کہ بچہ دیکھنے میں صاف ستھرا معلوم ہو مگر سونگھنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اسے پوری طرح صفائی سے نہلایا گیا ہے یا نہیں۔ اس لئے آپؐ صرف دیکھنے پر اکتفا نہ کرتے بلکہ اچھی طرح سونگھ کر معلوم کرتے کہ بچہ کو صاف ستھرا رکھا جاتا ہے یا نہیں۔

بچہ کی بہتری کے لئے ماں سے علیحدگی

اسی طرح اگر بچہ کی بھلائی اور اس کی روحانی یا جسمانی تربیت کے لئے بچہ کو اس کی والدہ سے الگ کئے جانے کی ضرورت پڑے تو بہت سی مائیں بچہ کی اخلاقی تباہی برداشت کر لیں گی مگر اپنے سے جدا نہ کریں گی۔ حالانکہ یہ محض حماقت اور جہالت کا اظہار ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے بچے ابراہیم کو ایک لوہار کے سپرد کیا کہ اس کی بیوی اس کو دودھ پلایا کرے اور بچہ کی صحت کی خاطر اسے گھر سے باہر بھیج دیا۔ حالانکہ اس وقت آپؐ کے صاحبزادہ کی عمر صرف دو ماہ کی تھی۔ اس میں ہمارے لئے یہ سبق ہے کہ بچہ کے وجود سے یہ غرض نہیں کہ وہ ہمارا کھلونا بنے اور صرف ہمارا دل بہلانے کے لئے اور چومنے چاٹنے کے لئے ہمارے پاس موجود رہے۔ بلکہ وہ خداتعالیٰ کی ہمارے پاس ایک امانت ہے۔ہمیں اس سے وہی سلوک کرنا چاہئے جو اس کی جسمانی اور روحانی تربیت کے لئے ضروری اور مفید ہو۔ یورپ کی مادی ترقی کا راز اسی میں مضمر ہے۔ یورپین عورتیں ہندوستان میں اپنے خاوندوں کے ساتھ رہتی ہوئی اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو تعلیم کے لئے یورپ بھیج دیتی ہیں۔ یا آپ یورپ میں رہتی ہوئی ملازمت کے لئے اپنے نوجوان بچوں کو ہندوستان بھیج دیتی ہیں مگر عام طور پر ہندوستانی مائیں ایک لمحہ کے لئے بچوں کو اپنی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونے دیتیں۔

رضاعت کے بعد بچہ کی حالت

پھر جب بچہ ایام رضاعت ختم کرتا ہے تو وہ کھانے پینے کے معاملہ میں کسی قانون کی پابندی اور کسی آئین کی حد کے اندر نہیں رہنا چاہتا۔ وہ جب چاہتا ہے کھاتا ہے اور جہاں سے ملے کھا لیتا ہے۔ اُسے اپنے پرائے، حلال و حرام، مفید اور غیر مفید کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ اور والدین محبت سے مغلوب ہو کر کم عمری کو بہانہ اور ناسمجھی کو عذر بنا کر اس کی تمام حرکات سے درگزر کرتے ہیں۔ وہ بجائے دائیں سے بائیں ہاتھ سے کھاتا ہے۔ دستر خوان پر اس کا ہاتھ سب برتنوں میں پڑتا ہے۔ وہ بدتمیزیاں کرتا ہے۔ مگر بجائے اصلاح کے والدین ان حرکات سے خوش ہوتے ہیں۔ حالانکہ وہ نہیں جانتے کہ آج اگر اصلاح نہ کی گئی تو آئندہ بھی اصلاح کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ عادت کیا ہے؟ ایک پودا ہے۔ اگر آج نہ اکھیڑو گے تو پھر جڑ پکڑ کر بغیر کلہاڑے کے نہ اُکھڑے گا۔لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے بچوں کی تربیت میں ان تمام امور کا خیال رکھا۔

ایک دفعہ حضرت امام حسنؓ نے کھیلتے کھیلتے زکوٰۃ کی کھجوروں کے ڈھیر سے ایک کھجور اپنے منہ میں ڈال لی۔ آپؐ نے فوراً ان کے منہ سے نکال کر پھینک دی اور کہا کہ کخ کخ یعنی چھی چھی چھی۔ پھر ایسا نہ کرنا۔ کیا تو نہیں جانتا کہ صدقہ ہمارے خاندان کے لئے جائز نہیں۔ اگرچہ اُس وقت امام حسنؓ کی عمر تین چار سال کی تھی لیکن آپؐ نے درگزر نہیں کیا بلکہ فوراً روک دیا اور نہ صرف روکا بلکہ تعلیم دے کر اور سمجھا کر روکا۔

اسی طرح آپؐ کا ربیب ابن ابی سلمہ آپؐ کی گود میں بیٹھ کر آپؐ کے ساتھ کھانا کھانے لگا اور اس کے ہاتھ برتن کے چاروں طرف پڑنے لگے۔ تو آپؐ نے فرمایا:بچے بِسْمِ اللّٰہِ پڑھ کر کھانا شروع کرو اور دائیں ہاتھ سے کھانا کھاؤ اور برتن میں صرف اپنے آگے سے کھانا لو۔ سارے برتن میں ہاتھ نہ ڈالو۔

جب بچہ باتیں کرنا سیکھتا ہے

اسی طرح بہت سے ماں باپ یہ نہیں دیکھتے کہ ان کے بچے کے منہ سے کیا کلمات نکلتے ہیں۔ وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ جلدی بولنا سیکھے۔ خواہ وہ گالیاں ہی سیکھے۔ چنانچہ ہر طبقہ کے بہت سے والدین اپنے بچہ کو توتلی زبان میں دوسروں کو گالیاں دیتے سن کر بھی خوش ہوتے ہیں بلکہ تحریک کرتے ہیں کہ وہ یہ فعل کرے تاکہ مجلس میں ہنسی اور خوشی کی ایک لہر پیدا ہو۔ مگر یہ خود اپنے ہاتھ سے بچہ کو تباہ کرنا ہے۔ عقلمند شخص وہ ہے جو یہ سمجھے کہ بچے نے زبان سیکھ کر بولنا تو بہرحال ہے۔ پھر خود ہی کیوں نہ اسے ایسی باتیں سکھائی جائیں جو اچھی اور نصیحتوں پر مبنی ہوں۔ حضرت امام حسنؑ سے منقول ہے کہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مجھے ایک فقرہ حفظ کرایا تھا جو ابھی تک یاد ہے اور وہ یہ ہے:

دَعْ مَا یَرِیْبُکَ اِلٰی مَا لَا یَرِیْبُکَ (سنن النسائی کتاب آداب القضاۃ)

یعنی چھوڑ دے وہ بات جو بُری اور شبہ والی ہو اور اختیار کرو وہ بات جو اچھی اور شبہ سے پاک ہو۔

رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کیا صحیح طریق اختیار فرمایا۔ آپؐ نے دیکھا کہ آپ کا نواسہ بولنے لگ گیا ہے۔ اگر اچھے کلمات نہ سکھائے تو بُری باتیں یا فضول فقرے منہ سے نکالے گا۔ اس لئے آپؐ نے مختصر اور چھوٹا سا جملہ یاد کرادیا۔ جو آئندہ کے لئے حضرت امام حسنؑ کے ہمیشہ کام آیا۔ اسی طرح آپ امام حسنؑ اور امام حسینؑ کو دعائیں سکھاتے تھے۔

بچوں سے پیار

پھر جس طرح بچوں کے اخلاق کی نگرانی کرنے اور ان کو بُرائیوں سے روکنے کے لئے تنبیہ کی ضرورت ہے اسی طرح ان سے پیار کرنا بھی ضروری ہے۔ کیونکہ جو شخص بچے سے پیار نہیں کرتا،بچے کو بھی اُس سے اُنس نہیں پیدا ہوتا۔ اور جب تک اُنس نہ ہو بچہ پر کبھی اُس کی باتوں کا اثر نہ ہو گا۔ اس لئے جو باپ نہایت بدمزاج ہو، اپنے بچوں سے پیار نہ کرتا ہو بلکہ ہر وقت ان سے سختی سے پیش آتا ہوں وہ بچوں کی نظر میں ایک ہوّا ہوتا ہے اور کبھی بھی وہ بچوں کی صحیح تربیت نہیں کر سکتا۔ اس لئے بچوں سے نرمی اور لطف سے پیش آنے کے علاوہ پیار و محبت سے بھی پیش آنا نہایت ضروری ہے۔ چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنے بچوں کو پیار کرتے تھے۔ ان کو گودی میں اُٹھاتے تھے۔ ان کا دل بہلاتے تھے۔ حالانکہ اس وقت کے جاہل عربوں کے نزدیک یہ امر وقار کے خلاف تھا۔

ایک شخص نے آپؐ سے اپنے نواسہ سے پیار کرتے ہوئے دیکھ کر کہا: یا رسول اللہ! میرے دس لڑکے ہیں مگر میں نے کبھی انہیں پیار نہیں کیا۔ آپؐ نے فرمایا کہ تیرے دل سے اللہ شفقت نکال لے تو میں کیا کر سکتا ہوں۔ اس فقرہ سے معلوم ہوا کہ پیار ایک طبعی امر ہے اور جو اپنے بچوں کو پیار نہیں کرتا وہ صاحبِ وقار نہیں بلکہ قسی القلب ہے۔ آپؐ سجدہ کی حالت میں ہوتے اور آپؐ کا کوئی بچہ آپؐ کی پشت پر سوار ہو جاتا تو آ پؐ توقف فرماتے اور جب وہ اُترتا تو سجدہ سے سر اُٹھاتے۔ آپؐ نے ایک دفعہ اپنی نواسی امامہؓ کو گود میں لے کر نماز پڑھی۔ جب سجدہ میںجاتے تو اُسے اُتار کر بٹھا دیتے۔ پھر اُٹھتے تو اٹھا لیتے۔ آپؐ سفر میں ہوتے تو اپنے چھوٹے رشتہ دار بچوں کو اپنے ساتھ باری باری سوار کرتے۔ غرض بچوں سے صرف تنبیہ اور صلاح ہی کا معاملہ نہیں ہونا چاہئے کیونکہ یہ تو یتیم خانہ کے کارکن بھی کرنا جانتے ہیں بلکہ پیار اور محبت بھی ضروری امر ہے۔ کیونکہ ایک یتیم اور غیر یتیم میں یہی فرق ہے کہ یتیم کی تربیت اور اصلاح اور نصیحت کے لئے ساری دنیا موجود ہے۔ مگر ہائے افسوس کہ کوئی ایسا نہیں جو اسے گود میں اٹھا کر اپنے سینہ سے چمٹا سکے۔ یہ ایک فطری معاملہ ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ بچے کو کھانے کو دو، کپڑے پہناؤ، اس کی فرمائش پوری کرو، اُسے کھلونے لے دو، سب کچھ کرو، بے شک وہ خوش ہو گا مگر جب اُسے گود میں اٹھا کر پیار کرو تو پھر دیکھو وہ کس فخریہ حالت میں ہو گا۔ اُس وقت بچہ اپنے آپ کو بادشاہ سمجھتا ہے۔ اس فعل سے بچوں کی خوشی، ان کی صحت، ان کے قویٰ، ان کے جذبات میں ایک نمایاں ترقی ہوتی ہے۔ بچوں پر پیار وہی اثر کرتا ہے جو کھیتی سے پانی۔

بچوں کی توقیر

پھر بعض لوگ یہ سمجھ کر کہ ہم باپ ہیںاس لیےبچہ کو ہم جو بھی بُرا بھلا کہیں جائز ہے۔ اُسے چوں و چرا نہیں کرنی چاہئے۔ یہ سب ٹھیک ہے۔ سعادت مند بیٹے ہم نے ایسا ہی کرتے دیکھے ہیں۔ مگر والدین کو خود ان کی عزت کا خیال کرنا چاہئے۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں:

اَکْرِمُوْا اَوْلَادَکُمْ (سنن ابن ماجہ کتاب الادب باب برالوالد والاحسان)

اے لوگو! اپنے بچوں سے عزت سے پیش آیا کرو۔

بعض نوجوان صرف اس لئے باپ کا مقابلہ کرتے اور نافرمان بن کر دین و دنیا کی تباہی خرید لیتے ہیں کہ باپ اپنے باپ ہونے کے زعم میں ان سے بات چیت میں وہ سلوک کرتے ہیں جسے بچے اپنے دوستوں کی نگاہ میں اپنے لئے باعثِ ذلت سمجھتے ہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت فاطمہؓ جب اپنے گھر سے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے گھر تشریف لے جاتیں تو آپؐ کھڑے ہو کر ملتے اور اپنی جگہ انہیں بٹھاتے۔ اپنا تکیہ ان کو دیتے۔ کیا اس سے بڑھ کر اولاد کی عزت کی کوئی مثال ہے؟

بے جا حمایت سے پرہی

پھر جب بچے ذرا بڑے ہوتے ہیں اور کوئی بے عنوانی ان سے سرزد ہو اور لوگ ان کے ماں باپ کو اس کی رپورٹ کریں تو عموماً لوگ بجائے اپنی اولاد کو سمجھانے یا ملامت کرنے کے شکایت کرنے والوں سے لڑنے جھگڑنے لگتے ہیں اور اپنی اولاد کی طرف سے غلط ڈیفنس پیش کرتے ہیں۔ جس کا نتیجہ سوائے اس کے اور کوئی نہیں نکلتا کہ ان کی اولاد اور زیادہ بگڑتی ہے۔ کیونکہ بچے دیکھتے ہیں کہ ہم لڑائی اور شرارت کر کے آئے مگر بجائے ملامت کرنے کے ماں باپ نے ہماری حمایت کی۔ اس لئے عقلمند شخص وہ ہے جو کبھی اپنی اولاد کی ناجائز حمایت نہ کرے بلکہ اگر ثابت ہو جائے کہ واقعہ میں اس کے بچے کا قصور ہے تو ضرور اسے سزا دے یا دلائے۔ تاکہ آئندہ کے لئے اصلاح ہو۔ حدیث شریف میں لکھا ہے کہ ایک عورت نے چوری کی۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس کا ہاتھ کاٹنا چاہا۔ وہ معزز خاندان کی عورت تھی۔ اس کی برادری کے لوگ سفارش لے کر پہنچے۔ آ پؐ نے سفارش کرنے والے سے فرمایا: لَوْ سَرَقَتْ فَاطِمَۃُ لَقَطَعْتُ یَدَھَا (سنن نسائی کتاب قطع السارق) یعنی اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کی رعایت نہ کرتا بلکہ اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔

بچے کے مرنے پر جزع فزع

یہ تو محبت کے تعلقات اور محبت کی باتیں تھیں۔ اب افسوس اور رنج کا حال بھی سنو۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ اگر ان کا کوئی بچہ فوت ہو جائے تو وہ صبر نہیں کرتے۔ اور جو جزع فزع شریعت کے رُو سے حرام ہے، اس کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ان کا دل خدا کے خلاف غیظ و غضب سے پُر، ان کی زبان شکوہ کا ایک کھلا ہوا دفتر ہوتی ہے اور ان کی حرکات خدا کو ایک چیلنج دیتی ہیں۔ مگر کیا یہ طریق عمل اُس مالک الملک کے حق میں ایک عاجز بندہ کے لئے مناسب ہے؟نہیں اور ہرگز نہیں۔ بے شک اس کا لختِ جگر اُس سے چھین لیا گیا۔ اس کا دل اس کے سینہ کے اندر سے پکڑ کر باہر نکال لیا گیا۔ مگر غور تو کرو کس نے ایسا کیا؟ اُسی نے جس نے وہ عطا کیا تھا۔ اگر حقیقت یہی ہے تو پھر شکوہ کیسا۔

باطل ضبط نفس

یہ تو دنیا کے ایک بہت بڑے طبقہ کی حالت ہے لیکن برخلاف اس کے بعض جھوٹے وقار اور باطل ضبط نفس والے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ بچوں کے مرنے پر لوگوں کے سامنے رنج کا اظہار یا آ نکھ کے آنسو اپنے لئے باعثِ توہین و بزدلی سمجھتے ہیں۔ مگر کیا یہ سخت دلی نہیں؟ ہے اور یقینا ہے۔ آؤ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو دیکھیں۔ آپؐ کے بچے آپؐ کے سامنے فوت ہوئے۔ جوان بھی، چھوٹے بھی،لڑکیاں بھی لڑکے بھی۔ مگر جو نمونہ آپؐ نے دکھایا وہ نہایت بے نظیر مگر نہایت ہی قابلِ تقلید ہے۔ آپؐ کا صاحبزادہ ابراہیم جب فوت ہوا تو آپؐ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ عبدالرحمن بن عوف نے کہا:یا رسول اللہ! آپؐ بھی روتے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: عوف کے بیٹے! یہ ایک رحمت ہے جو خدا نے بندوں کے دل میں رکھی ہے۔ پھر آپؐ نے فرمایا: آنکھ آنسو بہاتی ہے اور دل تیرے فراق سے اے ابراہیم غمگین ہے۔ پھر ہم نہیں زبان سے کہتے مگر وہی بات جو ہمارے رب کی رضامندی کا باعث ہو۔ (صحیح البخاری کتاب الجنائز)

سبحان اللّٰہ کیا صبر ہے ہمارے سیّد و مولا کا کہ آپؐ کا بڑھاپے میں اکلوتا بیٹا فوت ہوتا ہے مگر زبان شکوہ سے خالی، حرکات جزع فزع سے پاک، دل باوجود غمگین ہونے کے خداتعالیٰ کی رضا سے پُر ہے۔ آپؐ کی ایک بیاہی ہوئی بیٹی فوت ہوئی۔ آپؐ نے کمال صبر و تحمل سے اس کی تجہیز و تکفین کا ا نتظام کیا اور جب جنازہ قبر میں اُتارا گیا تو آپؐ کے آنسو بہنے لگے۔ غرض جو صبر کا نمونہ آپؐ نے دکھایا وہ ایک بے نظیر نمونہ ہے۔ جو نہ دل کی سختی پر اور نہ خدا کے شکوہ پر مبنی ہے بلکہ عین فطرت صحیحہ اور تعلق باللہ پر دلالت کرتا ہے۔

بعض متفرق باتیں

اولاد کے معاملہ میں بعض متفرق باتیں بھی ہیں۔ مثلاً اولاد میں جفاکشی، ایثار او راخلاق کا جذبہ پیدا کرنا بھی والدین کا فرض ہے۔ اگر بچے کی ہر بات میں فرمائش پوری کر دی جائے تو یقینا ایسا بچہ بڑا ہو کر ضدی اور آرام طلب ہو گا۔ وہ ایثار کا نمونہ نہ دکھا سکے گا۔ نہ وہ جذبات کے روکنے کے موقع پر اپنے جذبات پر قابو رکھ سکے گا۔ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس امر کا بہت خیال رکھا ہے۔ مثلاً ایک دفعہ حضرت فاطمہؓ نے عرض کیاکہ مجھے چکی پیسنے، کنوئیں سے پانی لانے اور گھر کے دوسرے بہت سے کام کرنے کی وجہ سے بہت تکلیف ہے۔ حتٰی کہ میرے ہاتھوں میں چھالے بھی پڑ جاتے ہیں۔ مجھے کوئی لونڈی یا کوئی غلام عنایت کیا جائے۔

 آپؐ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی یہ درخواست جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ذریعہ سنی تو رات کو حضرت فاطمہؓ کے گھر تشریف لے گئے اور ان کو مشقت اور ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالنے کے لئے فرمایا کہ بیٹی!

 آؤ تم کو ایسی بات سکھاؤں جو لونڈی اور غلام سے مستغنی کر دے۔ اور فرمایا: ہر نماز کے بعد 33-33 بار سبحان اللّٰہ۔ الحمدللّٰہ اور اللّٰہ اکبر کہہ لیا کرو۔

 کیا کوئی بادشاہ آج ہے جو اپنی اولاد میں ایثار اور جفاکشی کی یہ روح پیدا کرتا ہو۔ مگر اس سے یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ معاذ اللہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو حضرت فاطمہؓ کی امداد سے مضائقہ تھا۔ کیونکہ آپؐ نے صفا پر چڑھ کر جو مکہ والوں کے لئے ایک اعلان عام کیا تھا اس میں اپنی بیٹی فاطمہؓ کومخاطب کر کے یہ بھی فرمایا تھا۔

سَلِیْنِیْ مَا شِئْتَ مِنْ مَالِیْ (بخاری کتاب التفسیر)

ی جب تجھے ضرورت پڑے جتنا بھی میرا مال ہو گا تو مانگے گی تو مَیں تجھے دوں گا۔

 اسی طرح آپؐ ہی کی زبان فیض ترجمان کے ذریعہ یہ الٰہی قانون شائع کیا گیا کہ آ پؐ کی اولاد پر صدقہ اور زکوٰۃ حرام ہے تاکہ وہ خود کما کر کھائے۔ اسی طرح اکثر والدین اولاد کی ظاہری خوشی کافی سمجھتے ہیں خواہ ان کی اخلاقی اور روحانی حالت کیسی ہی ہو۔ مگر آپؐ اکثر یہ دعا مانگا کرتے تھے۔

اَللّٰھُمَّ اِجْعَلْ رِزْقَ آلِ مُحَمَّدٍ قُوْتًا (مسلم کتاب الزکوۃ)

الٰہی! میری اولاد کو گزارے کے قابل رکھنا۔

اسی طرح بعض لوگ اولاد کی خاطر دوسروں پر ظلم کرتے اور ناحق لڑتے جھگڑتے ہیں۔ اگر کوئی شخص خواہ نصیحت کے طور پر کسی کے بچہ کو تھپڑ مارے۔ وہ اسے قتل کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے اور یہ جذبہ بھی بہیمی اور حیوانی ہے۔ مگر رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صاحبزادی زینب کو ہجرت کرتے ہوئے دورانِ سفر میں ابن ہبَیرہ نے پتھروں سے زخمی کیا جس کے نتیجہ میں اسقاط سے ان کی وفات ہو گئی۔ دیکھو کیسا ظلم عظیم ہے کہ تیرہ سو برس سے زیاد ہ عرصہ اس پر گزر گیا مگر ہر دفعہ جب یہ واقعہ کوئی پڑھتا ہے تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس سے قیاس کرو کیا حال ہوا ہو گا رقیق القلب باپ کا۔ جب اس نے یہ حادثہ سنا ہو گا اور جب اس کی آنکھوں کے سامنے اس کی پیاری بیٹی نے دم توڑا ہو گا۔ مگر قربان جایئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے کہ فتح مکہ کے بعد جب ابن ہبیرہ مسلمان ہو کر سامنے آیا تو آپؐ نے اسے معاف کر دیا۔

 کیوں؟ کیا اس لئے کہ یہ جرم قابلِ پرسش نہ تھا؟ یا اس لئے کہ ابن ہبیرہ کے قتل پر آپؐ قادر نہ تھے؟ یا اس لئے کہ زینبؓ سے آ پؐ کو محبت نہ تھی؟ نہیں۔ بلکہ صرف اس لئے کہ آپؐ کا یہ ارشاد تھا کہ اَلْاِسْلَامُ یَھْدِمُ مَا قَبْلَہُ (صحیح مسلم کتاب الایمان باب کون الاسلام یھدم ما قبلہ) یعنی اسلام لانے سے پہلے کے تمام جُرم اسلام مٹا دیتا ہے۔ پس اس صداقت اور اس سچے اور پاکیزہ اصل نے آپؐ کے جذبہ محبت کو دبا دیا اور باوجود ملک عرب کے بادشاہ ہونے کے اپنی لختِ جگر کے قاتل کو آپؐ نے معاف کر دیا۔

پھر دیکھو کہ آدم سے لے کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک دنیا میں یہ دستور تھا کہ بادشاہ کی وفات پر اُس کا بیٹا تخت نشین ہوتا۔ بلکہ اب بھی دنیا کے اکثر ممالک میں یہی دستور ہے۔ لیکن کیا یہ دستور بہتر ہے؟ نہیں اور ہرگز نہیں۔ کیونکہ ہو سکتا ہے اور ہوتا ہے کہ ایک بادشاہ لائق ہو مگر بیٹا نالائق اور ناقابل ہو۔ لیکن اولاد کی محبت نے دنیا کو اندھا کر دیا ہے۔ اس لئے بادشاہ کے بعد اس کا بیٹا بادشاہ ہوا کرتا تھا۔ صرف دنیا میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سب سے پہلے بادشاہ ہیں کہ آپؐ نے اس بدرسم کو ترک کر دیا۔ آپؐ کے بیٹوں کی طرح پیارے نواسے موجود تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ جیسا داماد موجود تھا مگر بادشاہ کون ہوا؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ۔ کہ جن کے باپ کو سن کر یقین نہ آیا تھا کہ ان کے بیٹے کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے خاندان کے لوگ بادشاہ تسلیم کر چکے ہیں۔ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم۔

پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اولاد کے متعلق جو عمل کیا وہ ہمارے لئے واجب العمل اور اس پر عمل کرنے سے ہماری اولاد کی زندگی درست اور ان کے اخلاق اعلیٰ ہو سکتے ہیں۔ اس امر کا زبردست ثبوت یہ ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ہی تربیت کا یہ نتیجہ تھا کہ آپؐ کی لڑکی سیّدۃ نساء الجنۃ اور امام حسنؓ اور حسینؓ سیّد اشباب الجنۃ ہوئے۔

رَبِّ اَوْزِعْنِیْۤ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰہُ وَ اَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ جط اِنِّیْ تُبْتُ اِلَیْکَ وَ اِنِّیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَO

 

Print Friendly and PDF

Post a Comment

أحدث أقدم

Post Add 1

Post Add 2