Header Add

طلبہ کو محنت پر ابھارنے کی ضرورت واہمیت

Print Friendly and PDF

 

طلبہ کو محنت پر ابھارنے کی ضرورت واہمیت

یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ کوئی چیز بھی بغیر محنت اورجد وجہد کے حاصل نہیں ہو تی ۔ مگر حصول علم کے لئے خصوصی طور پر محنت کی ضرورت ہے ،قاعدہ ہے:’’مَنْ جَدَّ وَجَدَ‘‘جو محنت اور کوشش کرے گا وہ پائے گا۔’’وَلَيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلاَّ مَاسَعیٰ‘‘۔ انسان كے لئے وہی ہے جو اس نے محنت کر کے حا صل کیا ۔ ’’ بَقَدْرِ الْکَدِّ تُکْتَسَبُ الْمَعَالِیْ ‘‘ ۔ کدو کاوش کے مطابق ہی اعلی مراتب حاصل ہوتے ہیں۔

ہمارے اسلاف, محدثین ، فقہاء اور بڑے بڑے ائمہ کرام نے جو مختلف علوم میں اعلیٰ مقامات حاصل کئے اور انھیں ان علوم وفنون میں جو مہارت حاصل ہوئی ان میں ان کی محنت اور جد وجہد کا بھی بڑادخل تھا ۔مثلاً امام بخاری رحمہ اللہ امیر المؤمنین فی الحدیث مانے جاتے ہیں اور ان کی کتاب صحیح بخاری’’ اَصَحُّ الْکُتُبِ بَعْدَ کِتَابِ اللّٰهِ‘‘ مانی جاتی ہے،مگر ان کو اور ان کی کتاب کو یہ مقام ویسے نہیں حاصل ہوا،اس کے لئے انھوں نے بڑی محنت اور جد وجہد کی، حصول علم کے لئے ان کی حرص و خواہش اور جد وجہد کا یہ عالم تھاکہ رات کو کئی کئی مرتبہ بیدار ہوتے، اٹھ کر چراغ جلاتے اور ذہن میں جو علمی نکتے اور فوائد کی باتیں آتیں انھیں نوٹ کرتے ،اور پھر چراغ بجھاکر لیٹ جاتے ، حتی کہ بعض راتوں میں آپ اس طرح بیس بیس مرتبہ اٹھتے ۔

ابو الوفاء ابن عقیل  رحمہ الله  کے علمی شوق کا یہ عالم تھاکہ وہ کہتے ہیں : میں پوری کوشش کرتا ہوں کہ کھانے میں کم سے کم وقت صرف ہو، چنانچہ وقت بچانے کی خاطر میں روٹی کی بجائے کیک کے سفوف کو ترجیح دیتا ہوں، اور اسے پانی کے ساتھ نگل لیتا ہوں،اس طرح مطالعہ اورعلمی فوائد کو نوٹ کرنے کے لئے وقت بچاتا ہوں۔

وہ فر ماتے تھے کہ میں اپنے لئے حلال نہیں سمجھتا کہ اپنی عمر کی ایک ساعت بھی ضائع کردوں۔یہاں تک کہ جب میں تھک جاتا ہوں اور زبان مذاکرہ اور قراء ۃ سے قاصر اورآنکھیں مطالعہ سے عاجز ہو جاتی ہیں تو آنکھیں بند کر کے چپ چاپ لیٹ جاتا ہوں، اور اس آرام کی حالت میں بھی غورو فکر کرتا رہتا ہوں،اور جو علمی باتیں اور نکات ذہن میں آتے ہیں ان کو ترتیب دیتارہتا ہوں، پھر جب کچھ آرام کر کے اٹھتا ہوں تو انھیں ترتیب سے لکھ لیتا ہوں ، آج میری عمر اسّی سال ہے مگر میرے علمی ذوق و شوق اور تڑپ میں کوئی کمی نہیں ہوئی ہے ، بیس سال کی عمر میں حصول علم کی جتنی خواہش اورلگن میرے اندر تھی آج اس سے زیادہ ہی ہے ۔

شیخ مجد الدین ابو البرکات عبد السلام بن عبد اللہ جو ا بن تیمیہ الجد کے نام سے مشہور ہیں اور جنکی تصنیفات میں سے ’’منتقی الأخبار من احادیث سید الأخیار ‘‘ جس کی شرح ’’نیل الاوطار للشوکانی ‘‘ ہے اور ’’المحرر فی الفقہ‘‘ وغیرہ بیش قیمت کتابیں ہیں، ان کے حصول علم کے شوق و حرص اور اپنے اوقات کو بے کار ضائع ہو نے سے بچانے کی خواہش کا یہ عالم تھا کہ ان کے بارے میں شیخ عبد الرحمن بن عبد الحلیم بن تیمیہ رحمہ اللہ فر ماتے ہیں کہ ہمارے دادا جب بیت الخلاء جاتے تومجھ سے کہتے :

کتاب کو تم بلند آواز سے پڑھو، تاکہ میں بیت الخلاء میں بھی سنتا رہوں، اوریہ صرف اس خاطر تھا کہ ان کا یہ وقت حصول علم سے خالی نہ جائے۔ (دیکھئے:مقدمۃ المحررفی الفقہ:ص۱۳، العلم و الدین:۱۰،۱۱)

اس واسطے اساتذہ و معلمات کو خود حصول علم کے لئے خوب محنت کرنی چاہئے اور طلبہ و طالبات کو بھی برابرحصول علم کے لئے محنت کرنے کی تاکید کرتے رہنا چاہئے اور ان کے اندر مطالعہ کا شوق پیدا کرنا اور انھیں علم کے دینی و دنیوی فوائد بتاتے رہنا چاہئے۔

Print Friendly and PDF

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی

Post Add 1

Post Add 2