Header Add

تدریس کے۳۴ مختلف طریقے

Print Friendly and PDF


تدریس کے۳۴ مختلف   طریقے

اس وقت دنیا میں ۳۵ مختلف اقسام کے تدریسی طریقے موجود ہیں۔ استاتذہ کی سہولت کے لئے ان تمام کی تفصیل دی جا رہی ہے۔ ہر استاد اپنی منشا اور طلباء کی دلچسپی کے پیشِ نظر کوئی بھی طریقہ استعمال کرسکتا ہے۔

1.   کہانی طریق تدریس(Story Telling Method)

اس میں بچوں کو کہانی سناکر معلومات فراہم کی جاتی ہیں، جو بچوں کی نفسیات سے بہت ہم آہنگ ہوتا ہے۔آئیڈیل شخصیات، سماجی کارکنان، بادشاہوں اور اخلاقیات پر مشتمل قصے کہانیاں زیادہ موثر ہوتی ہیں۔ اس کا بنیادی مقصد بچوں میں ترغیب اور شوق پیدا کرنا ہوتاہے۔ کہانیوں کے لیے ضروری ہے کہ بچوں کی قوت فہم اور زبان کے مطابق لکھا جائے۔یہ طریقہ بالعموم  سال کی عمر کے بچوں کے لیے مفید ہوتا ہے۔

خصوصیات

·        کسی چیز پر فوکس کرنا۔

·        تصورات میں تخلیقیت۔

·        ذخیرہ الفاظ میں اضافہ۔

2.   متن تدریس طریقہ (Text Book Method)

اس میں اساتذہ بلند آواز سے کتاب کے متن کو پڑھتے ہیں اور اہم اہم پوائنٹ کی تشریح کرتے ہیں۔ اس میں طالب علموں کو بھی متن پڑھنے کا موقع دیا جاتا ہے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ متن آسان زبان میں لکھی جائے۔ مضمون کو بچوں کی عمر کے لحاظ سے عام فہم رکھا جائے۔ کتابت، طباعت اور مشمولات میں ایسی چیزیں شامل کی جائیں، جو بچوں کے لیے دل کشی اور تفریح کا ذریعہ بنیں۔

3.   تقریری طریقہ (Lecture Method)

اس طریقے کو چاک اینڈ ٹاک میتھڈ (Chalk & Talk Method) بھی کہا جاتا ہے۔ اس طریقے میں اساتذہ درس گاہ میں زبانی تقریر کے ذریعہ موضوع پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہیں۔مثالیں دے کر عنوان کو سمجھاتے ہیں۔ اسباق کو سمجھانے کے لیے یہ انتہائی موثر طریقہ ہے۔

خصوصیات

·        سسٹمیٹک ہونا ضروری ہے۔

·        منطقی ہونا۔

·        موثرہونا۔

·        بڑی تعداد کو پڑھانے کا اچھا طریقہ ہے۔

منفی خصوصیات

·        بورنگ طریقہ ثابت ہوسکتا ہے۔

·        سننے کو بڑھاوا دیتا ہے، جو کرکے سیکھنے کے متضاد ہے۔

·        استاذ مرکوز طریقہ ہے۔

·        طالب علم کی قوت فہم کو نہیں بڑھاتا ہے۔

4.   مشاہداتی طریقہ (Demonstration Method)

اس میں بنیادی طور پر کسی چیز کو دکھاکر تعلیم دی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر دنیا کو سمجھانے کے لیے گلوب ، یا نقشہ دکھایا جائے۔ سائنس اور دیگر علوم کی تعلیم کے لیے یہ طریقہ انتہائی مفید ہے۔ تاہم اس کی کچھ منفی خصوصیات بھی ہیں:

·        عملی سرگرمیاں بہت کم ہیں۔

·        صرف مشاہدہ سے تعلیم دی جاتی ہے۔

·        صرف استاذ کے مطابق مشاہداتی عمل ہوتا ہے۔

·        سبھی علوم و فنون کی تعلیم ممکن نہیں ہے۔

5.   جماعت بندی طریقہ (Tutorial Method)

اس طریقے میں طلبہ کو گروپ میں تقسیم کیا جاتا ہے اور طالب علم کو انفرادی تعلیم دینے کے بجائے گروپ کو تعلیم دی جاتی ہے۔ اس کی دو شکلیں ہوتی ہیں:

·        یکساں صلاحیت والے طلبہ کی جماعت (Homogenous)

·        مختلف صلاحیت والے طلبہ کی جماعت (Heterogeneous)

طلبہ کی جب بھی جماعت بنائی جائے گی، ہمیشہ مختلف صلاحیت والے طلبہ کی جماعت بنائی جائے گی، تاکہ کمزور طلبہ بھی جماعت میں سیکھ سکے۔

6.   سوال جواب طریقہ (Question & Answer Method)

یہ طریقہ سقراط کی ایجاد ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے اندر جو معلومات مخفی ہیں، انھیں سوال و جواب کے ذریعہ باہر نکالا جاسکتا ہے۔ اس طریقہ کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ استاذ اور طلبہ دونوں مرکوز طریقہ ہے۔ سوالات طلبہ کو متجسس بناتے ہیں،اور اساتذہ کے جوابات طلبہ کے لیے رہ نمائی کے سامان بہم پہنچاتے ہیں، جس سے طلبہ اور استاذ دونوں کی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔ عمومی طور پر یہ طریقہ تدریس بہت مفید ہے۔

7.   بحث و مباحثہ طریقہ (Discussion Method)

اس میں کسی بھی موضوع پر بحث و گفتگو کے ذریعہ تعلیم دی جاتی ہے۔پہلے استاذ طلبہ سے ، پھر طلبہ آپس میں ایک دوسرے سے مباحثہ کرتے ہیں۔ اس کی خصوصیات ہیں:

·        اس میں کھلے ذہن سے بحث کی اجازت ہوتی ہے۔

·        لیڈرشپ کی صلاحیت نکھرتی ہے۔

·        برداشت اور سامنے والے کو سننے کی طاقت پیدا ہوتی ہے۔

·        طلبہ کی عادت و اطوار کی پیمائش کی جاتی ہے۔

·        طلبہ کے تاثرات کا اندازہ لگ جاتا ہے۔

·        منطقی فکر کی صلاحیت پروان چڑھتی ہے۔

8.   انکشافی طریقہ (Heuristic Method)

یہ طریقہ H.E Arm Strong نے دیا تھا ۔ اسی طریقہ کو Pollion اور Dankar نے Problem Solving Method کا نام دیا ہے۔ اس طریقہ میں طلبہ خود سے حقائق کو تلاش کرتے ہیں ، حقائق تلاش کرنے میں جو پریشانیاں سامنے آتی ہیں، ان کا تجزیہ کرتا ہے ، جس کے نتیجہ میں حقائق تک پہنچ جاتا ہے۔ اس میں طلبہ پہلے کوشش کرتے ہیں، اس کوشش میں غلطیاں بھی ہوتی ہیں، لیکن بار بار کرکے غلطیوں پر قابو پالیتا ہے۔ یہ طریقہ طلبہ میں خود اعتمادی پیدا کرنے میں کافی معاون ہے۔

9.   کھوج طریقہ (Discovery Method)

اس میں کھوج اور تلاش پر مبنی طریقہ تدریس اختیار کیا جاتا ہے۔ یہ طریقہ انکشافی طریقہ سے کافی مماثلت رکھتا ہے، تاہم دونوں میں کئی بنیادی فرق ہیں۔ اس کا استعمال سوشل سائنس کی تدریس کے لیے ہوتا ہے جب کہ انکشافی طریقہ سائنس میں نئے قوانین بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔کھوج کے طریقہ میں پہلے سے موجود حقائق کی تشریح کی جاتی ہے ، جب کہ انکشافی طریقے میں نئی دریافت ہوتی ہے۔کھوج کا طریقہ ماضی کے حقائق سے تعلق رکھتا ہے، جب کہ انکشافی طریقہ حال سے بحث کرتا ہے۔

10.                     پروجیکٹ طریقہ (Project Method)

یہ نظریہ William Heard Kilpartrick کی دین ہے۔اس میں بچوں کو کوئی پروجیکٹ دے دیا جاتا ہے جس کی منصوبہ بندی کرکے وہ نئی چیزوں کو سیکھتا ہے۔یہ طلبہ مرکوز طریقہ ہے۔ اس میں طلبہ کو ایسے کاموں کو دیا جاتا ہے، جو سماج سے مربوط ہوتا ہے۔ طلبہ گروپ بناکر کسی منصوبہ کی پلاننگ کرتے ہیں ۔ اس طریقہ سے طلبہ میں تخلیقی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ اس میں اور انکشافی طریقہ میں فرق یہ ہے کہ پروجیکٹ میں گروپ بندی ضروری ہوتی ہے، جب کہ انکشافی طریقہ میں طلبہ انفرادی طور پر کام کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں انکشافی طریقہ میں فرضی پروبلم تخلیق کی جاتی ہے، جب کہ پروجیکٹ میں ہمیشہ حقیقی پریشانیوں کا حل ڈھونڈھنا ہوتا ہے۔

خصوصیات

پروجیکٹ کی چار خصوصیات ہوتی ہیں:

·        تخلیقی (Construction)

·        دل چسپ (Enjoyment)

·        مسائل کا حل (Problem)

·        خصوصی معلومات (Specific Learning)

11.                     ایکٹنگ طریقہ(Role Paly & Dramatization Method)

کسی چیز کو سیکھنے یا سکھانے کے لیے تقریر کے بجائے اداکاری کی جائے ۔ اس میں استاذ یا ایک طالب علم کوئی رول پلے کرتا ہے، تو بقیہ طلبہ اس کو بغور دیکھتے ہیں اور خوبی خرابی پر نظر رکھتے ہیں۔ اس طریقے سے طلبہ میں عملی سرگرمی اور مشاہدہ کی قوت پروان چڑھتی ہے۔ اس طریقہ کا استعمال بالعموم ٹیچر ٹریننگ وغیرہ میں کیا جاتا ہے۔ اس سے الفاظ کو خارجی وجود دینے اور تصورات کو وسعت دینے میں مدد ملتی ہے۔ اس کے خالق کا نام Jacob. L. Moreno ہے۔

12.                     اجتماعی طریقہ(Brainstorming Method)

اس نظریہ کے خالق Alex Faickney Osborn ہیں، جو انھوں نے اپنی کتاب (Applied Imagination ) میں  میں پیش کیا تھا۔ یہ طریقہ دراصل گروپ بندی پر مشتمل ہے، جس میں طلبہ کا ایک گروپ بناکر کسی عنوان پر سبھی گروپ ممبران کو اپنے اپنے آئیڈیا اور خیالات پیش کرنے کو کہا جاتا ہے ۔کسی ایک شخص کے خیالات کے مقابلہ میں گروپ کے خیالات اور مسائل کے حل کی تلاش زیادہ بہتر نتیجہ دے سکتی ہے ، اس سے نہ صرف طلبہ کی فکری طاقت بڑھتی ہے؛ بلکہ مختلف لوگوں کے خیالات سے روشناس بھی ہوتے ہیں اور نئے نئے آئیڈیا بنانے کی صلاحیت بھی پیدا ہوتی ہے۔ یہ طریقہ بچوں کی بولنے کی حوصلہ افزائی کرنے، خیالات شیئر کرنے، بحیثیت گروپ صلاحیت کا مظاہرہ کرنے، ایک دوسرے سے سیکھنے، خود اعتمادی کو بڑھا نے، طلبہ کی غلطی فہمی دور کرنے وغیرہ کے لئے بہت مفید ہے۔

13.                     فوجی تربیتی طریقہ(Drill Method)

اس طریقے میں اساتذہ جو قواعد و ضوابط طلبہ کو پڑھاتے ہیں، انھیں عملی طور پر طلبہ کو کرنے کا پابند بنایا جاتا ہے۔ درس گاہ میں جب طلبہ ان قواعد کو عملی جامہ پہناتا ہے، تو اساتذہ ان کی نگرانی کرتے ہیں ۔ جب طلبہ کسی جگہ کام نہیں کرپاتے ہیں، تو اساتذہ ان کی مدد کرتے ہیں ۔ اس سے طلبہ میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے اور کوئی سرگرمی انجام دینے سے نہیں گھبراتا۔

14.                     مثال سے قاعدہ کا طریقہ(Inductive Method )

یہ طریقہ Aristotle یعنی ارسطو نے دیا تھا۔اس کے بانی میں Bacon کا نام بھی آتا ہے۔ اس کا دوسرا نام (Scientific Method) بھی ہے۔اس میں پہلے بہت ساری مثالیں پیش کی جاتی ہیں، پھر اس کی روشنی میں کوئی قاعدہ بتایا جاتا ہے۔ اس میں مجہولات سے معلومات کا سفر طے ہوتا ہے۔ اور تخلیقی فکر کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔

15.                     قاعدہ سے مثال کا طریقہ(Deductive Method)

یہ طریقہ بھی Aristotle یعنی ارسطو کی ایجاد ہے۔ اس میں پہلے قاعدہ بتایا جاتا ہے، پھر اس کے بعد مثالیں پیش کی جاتی ہیں ۔ اس میں عام سے خاص کی طرف کا سفر طے ہوتا ہے۔ اس میں طلبہ کا وقت بچتا ہے اور زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی ؛ لیکن اس میں سوچنے کا دائرہ محدود ہوتا ہے؛ یعنی تخلیقی فکر پیدا نہیں ہوتی۔

16.                     مسائل حل کرنے کا طریقہ (Problem Solving Method)

اس طریقہ میں بچوں کے سامنے ایک مشکل رکھی جاتی ہے اور کہاجاتا ہے کہ اس کا حل تلاش کرو۔بچہ از خود پریشانی کا حل ڈھونڈھنے کی کوشش کرتا ہے۔ کبھی کبھار طلبہ کو حل کا اشارہ بھی دے دیا جاتا ہے۔ اس سے طلبہ میں سوچنے کی صلاحیت بڑھتی ہے۔

سیاحی طریقہ (Field Trip or Excursion Method)

اس طریقہ میں بچوں کو سیاحت پر لے جایا جاتا ہے، جہاں زمینی سطح پر بچوں سے ڈیٹا جمع کرنے کے لیے کہا جاتا ہے ۔ اس طریقے میں بچے تفریح کے ساتھ ساتھ تعلیم بھی حاصل کرتے ہیں۔ اور مشاہدہ فطرت سے علم کشید کرتا ہے۔

17.                     کھیل کھیل کا طریقہ (Play way Method)

اس نظریے کے تخلیق کار ہیں Forbel Friedrich۔ اس میں بچوں کی نفسیات کے مطابق کھیل کھیل میں تعلیم دینے کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ اس کا دوسرا نام Kindergarten Method بھی ہے۔ اس میں کھیل اولیت رکھتا ہے جب کہ تعلیم ثانوی مقصد ہوتا ہے۔

18.                     ماریہ مونٹیسری طریقہ (Montessoryi Method)

اس نظریہ کو پیش کرنے والی خاتون کا نام Dr. Maria Montessori ہے۔ اس طریقے میں بتایا گیا ہے کہ بچے حواس خمسہ یعنی آنکھ کان ناک دماغ اور چھوکر سیکھتے ہیں اور اسی طریقے سے انھیں سکھایا جاسکتا ہے۔اس طریقے میں از خود سیکھنے اور گروپ میں سیکھنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ اوراساتذہ بچوں کو مناسب طریقے کی رہنمائی کرتا ہے۔

19.                     ڈالٹن طریقہ (Dalton Method)

اس کے بانی Helen Parkhurst خاتون ہیں۔اس میں بچوں کو تعلیم کے آلات: کاپی قلم، پینسل ، کھلونےوغیرہ دے دے دیے جاتے ہیں اور انھیں کرنے کی آزادی دی جاتی ہے۔ اس میں بچوں کو ایک متعین وقت دیا جاتا ہے اور اسی دوران کام کو مکمل کرنے کو کہا جاتا ہے۔ اس میں طلبہ مرکوز نظام تعلیم پر زور دیا جاتا ہے۔ اس کا دوسرا نام Liberty Methodبھی ہے۔ ان کا ماننا تھا کہ بچوں کو کام کرنے کی آزادی دینے سے بچوں کے کام کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔

20.                     سرگرمی طریقہ(Activity Method)

اس نظریے کے تخلیق کار ہیں David Horsburg۔ اس میں طلبہ اور اساتذہ دونوں تعلیم و تدریس کی سرگرمیوں میں برابر کے شریک رہتے ہیں ۔ یہ طریقہ طلبہ مرکوز طریقہ ہے، جس میں طلبہ کو مکمل طورپر حصہ لینے کے لیے اساتذہ حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

21.                     تجزیاتی طریقہ (Analysis Method)

اس طریقہ میں مسائل کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کردیا جاتا ہے ۔ پھر استاذ یکے بعد دیگرے ہر ایک حصہ کی تشریح کرتا ہے،اور ان کا حل بتاتا ہے۔ اس میں مجہولات سے معلومات کی طرف جایا جاتا ہے۔ یہ طریقہ کھوج اور انکشافی طریقے سے مماثلت رکھتا ہے۔ تاریخ پڑھانے میں یہ سب سے معاون طریقہ ہے۔

22.                     ترکیبی طریقہ (Synthesis Method)

چھوٹے چھوٹے مسائل کو اس طرح جوڑا جاتا ہے کہ اس کے مجموعہ سے کوئی معنی خیز نتیجہ نکلتا ہے۔ اس طریقے میں معلومات سے مجہولات تک اور تجزیہ سے نتیجہ تک پہنچتے ہیں ۔ استاذ کئی چھوٹی چھوٹی معلومات طلبہ کے سامنے پیش کرتا ہے، جس سے طلبہ کو ان حصوں کو جوڑ کر نتیجہ یا ماحصل نکالنے کے لیے کہا جاتا ہے۔

23.                     ذرائع طریقہ (Source Method)

اس طریقہ میں معلومات کے ذرائع پر فوکس کیا جاتا ہے ، جس میں کسی شخص، کتاب، ڈاکیومنٹ، تصاویر اور دیگر ذرائع سے معلومات حاصل کی جاتی ہیں۔ اس میں براہ راست عمل سے سیکھا جاتا ہے۔

24.                       جزوی طریقہ تدریس   (Micro Teaching Method)

 اس نظریے کے خالق ہیں Dwight Allen۔یہ ایک ایسا طریقہ ہے ، جس میں طلبہ کو تدریس کے لیے ٹریننگ دی جاتی ہے، تاکہ مستقبل میں ایک اچھا استاذ بن سکے۔ اس طریقہ کا استعمال بالعموم بی۔ ایڈ۔ بی ٹی وغیرہ کی ٹریننگ میں کیا جاتا ہے۔ اس میں درس گاہ اور پڑھانے کا وقت چھوٹا رکھا جاتا ہے، تاکہ طلبہ گھبراہٹ کے شکار نہ ہوں۔ یہ نظریہ  میں ڈیلوپ ہوا تھا۔ بھارت میں ڈی ڈی تیواری نے الہ آباد میں  میں سب سے پہلے عملی جامہ پہنایا۔ Dwight Allen نے  صلاحیتیں پیدا کرنے کی بات کہی ہے۔ این سی ای آر ٹی نے کہا ہے کہ تدریس کے لیے  صلاحیتیں ہونا ضروری ہیں۔ اس میں  منٹ تک پڑھایا جاتا ہے۔  منٹ تک فیڈ بیک لیا جاتا ہے۔  منٹ تک ری پلان کیا جاتا ہے۔ پھر  منٹ پڑھا یا جاتا ہے۔ اور پھر  منٹ فیڈ بیک لیا جاتا ہے۔ کل  منٹ کی کلاس رکھی جاتی ہے۔

25.                     سماجی رابطہ کاری کے ذریعے سے تدریس (Sociometry Method)

اسے Jacob L. Moreno نے دیا تھا۔اس طریقے میں انسانوں کے سماجی رابطے ، ان کی پسند، ناپسند اور باہمی روابط کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اس میں لوگوں کی پسند ، ناپسند کی درجہ بندی یا نمبرات دیے جاتے ہیں ۔ اس میں لوگوں کی نفسیات کا گہرا مطالعہ کیا جاتا ہے۔اور درس گاہ میں بچوں کے باہمی تعلقات، عادات و اطوار کا مطالعہ بھی اسی طریقہ میں کیا جاتا ہے۔

26.                     پروگرام لرنننگ (Winnetka Method)

اس نظریہ کے بانی Carleton Washburne ہیں۔ یہی نظریہ بعد میں چل کر پروگرم لرننگ کے نظریہ سے مشہور ہوا۔ اس میں تخلیقی سرگرمیاں انجام دی جاتی ہیں ، طلبہ کے جذبات کا خیال رکھا جاتا ہے اور سماجی عوامل پر بھی فوکس کیا جاتا ہے۔

27.                     ہدایاتی طریقہ تدریس (Programmed Learning/Instruction Method)

یہ نظریہ B. F. Skinner سے منسوب ہے۔ اسکینر نے خود سے سیکھنے والے آلات ایجاد کیے۔اس طریقے میں بچے تعلیمی آلات کو جمع کرتے ہیں۔ آلات کو ایسی ترتیب میں رکھا جاتا ہے، جس سے کسی نئی چیز کی سیکھ ملتی ہے۔ پھر اس کے متعلق سوالات کیے جاتے ہیں۔ اگر بچہ سوالات کے صحیح جوابات دیتے ہیں، تو کہا جاتا ہے کہ اس بچہ نے سیکھ لیا۔ اگر صحیح جوابات نہیں دے پاتے ہیں، تو اس کا مطلب ہے کہ اس نے ابھی تک مکمل طور پر نہیں سیکھا۔ پھر اسے دوبارہ سیکھنے کے لیے آمادہ کیا جاتا ہے۔ اس میں تعلیم ، ہدایات اور پروگرامنگ تینوں ایک ساتھ کام کرتے ہیں۔

28.                     (Five Stape Lesson Plan Method)

یہ نظریہ Herbart کا ہے۔ انھوں نے بالغ افراد کی تعلیم کے لیے پانچ مراحل مقرر کیے ہیں:

·        تیاری (Preparation) اس میں کلاس کے لیے تیاری کی جاتی ہے۔

·        پیش کرنا (Presentation)جو کچھ تیار کیا گیا ہے، اسے طلبہ کے سامنے پیش کرنا ہے۔

·        متعلق کرنا (Association)اس میں طلبہ کی معلومات اور دی گئی معلومات میں موازنہ کیا جاتا ہے۔اور موضوع سے متعلق ضروری معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔

·        عام کرنا(Generalization)فراہم کی گئی معلومات میں وسعت دیتے ہوئے مختلف زاویوں پر بحث و گفتگو کی جاتی ہے۔

·        قابل عمل بنانا (Application)اس میں طلبہ نے کتنا سمجھا ہے، اس کو عملی طور پر جانچا جاتا ہے۔

29.                     غیر بصری طریقہ(Braille Script Method)

اس کے تخلیق کار Louis Braille ہیں۔ اس میں  ابھرے ہوئے نقوش پر مبنی علامات بنائے جاتے ہیں، جسے چھو کر نابینا افراد تعلیم حاصل کرتے ہیں۔  ابھرے نقوش کو  شکلوں میں ترتیب دی جاتی ہے، جس سے ایک حرف، کئی حروف یا علامت کی نمائندگی ہوتی ہے۔

30.                     تقلیدی طریقہ(Imitation Method)

بچوں کی نفسیات کے ماہرین کا ماننا ہے کہ نئی معلومات سیکھنے کا ایک سب سے اہم طریقہ تقلید یا نقل ہے۔ تقلید، یا کسی دوسرے کے طرز عمل کی کاپی کرنا ، بچپن میں ہی شروع ہوجاتا ہے اور عمر بھر جاری رہتا ہے۔ بچے اپنے آس پاس کے افراد اور ماحول کو جس طرح دیکھتے ہیں، اس کی کاپی کرلیتے ہیں۔ ذاتی دل چسپی، ماحولیاتی عناصر اور اطوار و عادات اس طریقے میں تعلیم کے بنیادی عناصر ہیں۔ تدریس کا یہ طریقہ کافی مفید ہے کہ بچوں کو اپنے آپ کو نمونہ بناکر تعلیم دی جائے۔ اس نظریے کے بانی Albert Bandura ہیں۔

31.                     بنیادی طریقہ تدریس (Basic Education Method)

یہ گاندھی جی کا نظریہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ تعلیم طلبہ مرکوز ہونا چاہیے۔ تعلیم بچوں کی مادری زبان میں دی جائے۔ گاندھی جی تعلیم کو روزگار کے لیے بیمہ قرار دیتے تھے۔ بچوں کو غیروں کی تہذیب و تاریخ پڑھانے کے بجائے اپنی تاریخ و تہذیب پڑھانا ضروری ہے۔ کتاب کی تعلیم اور ماحول میں ہم آہنگی ہونی چاہیے۔اسی طرح تعلیم فری میں دی جانی چاہیے۔ اس کی شروعات  میں ہوئی، جس کا چئیرمین ڈاکٹر ذاکر حسین کو بنایا گیاتھا۔یہ نظریہ واردھا تعلیمی اسکیم کے نام سے جانا جاتا ہے۔

32.                     خاں صاحب کا طریقہ (Khan Method)

مولوی محمد اسماعیل خاں میرٹھیؒ ماہر نفسیات کے ساتھ ساتھ ماہر تعلیم بھی تھے۔ انھوں نے بچوں کے نصاب پر بہت کام کیا ہے۔ ان کا نظریہ تھا کہ بچے تدریجی طور پر سیکھتے ہیں۔ انھوں نے اپنی کتاب ’’اردو کی پہلی کتاب‘‘ کی سیریز میں بچوں کو پہلے حروف تہجی باترتیب، پھر حروف تہجی بے ترتیب، بعد ازاں دو حرفی، سہ حرفی ، اس طرح آٹھ حرفی لفظوں تک کی تعلیم کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ بچوں کو ان کے ماحول پر مشتمل مضامین پڑھایا جانا چاہیے۔بچوں کو کہانی کے ذریعہ اخلاقی اور دینی تعلیم دی جاسکتی ہے۔ اسی طرح بچوں کے لیے آسان زبان و اسلوب بھی ضروری ہے۔

33.                       جمعیت کا طریقہ (JUH Method)

مورخ ملت مولانا محمد میاں صاحب نور اللہ مرقدہ جمعیت علمائے ہند کے ناظم اعلیٰ تھے ۔ انھوں نے جمعیت کا شعبہ مرکزی دینی تعلیمی بورڈ کے لیے نصابی کتابیں اور طریقہ تدریس کے اصول لکھے ہیں۔ ان کے مطابق نصاب اور کتاب سے زیادہ ضروری استاذ اور اس کا طریقہ تعلیم ہے۔ انھوں نے تدریس کے بنیادی اصول کے طور پر طلبہ کو مانوس کرنے، بچوں کی صلاحیت کو سمجھ کر اس کے مطابق کام لینے، علامات کی شناخت سے پہلے آواز کی شناخت کرانے، تصویر کے بجائے تصور ی طاقت کو مضبوط کرنے اور شوق و دل چسپی پیدا کرکے تعلیم فراہم کرنے کی وکالت کی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ بچے کسی وقت خالی بیٹھنا نہیں جانتے ہیں، ان کی اس فطری کیفیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انھیں تعلیمی کاموں میں مشغول کریں۔ بچوں کے دماغی بوجھ کو کم کرنے کے لیے مصروفیت کے شیڈول میں تنوع پیدا کریں۔ بچوں کی کتاب میں حروف بڑے بڑے اور جلی شکل میں لکھا ہونا چاہیے، کیوں کہ بڑے حروف زیادہ یاد ہوتے اور رہتے ہیں۔ مولانا جماعت بندی میں تعلیم دینے کے حامی ہیں۔ اسی طرح بچوں کی حوصلہ افزائی کرنا بھی مفید ہوتا ہے۔ جرم و سزا کے حوالے سے مولانا کا نظریہ ہے کہ حتیٰ الامکان مار پٹائی سے گریز کیا جائے؛ لیکن اگر پٹائی ضروری ہی ہو تو بچے کے جرم اور استاذ کی سزا میں توازن برقرار رکھنا ضروری ہے۔ اسی طرح ہوم ورک کاپی قلم سے زیادہ کھیل کھیل کے فارمیٹ دیا جائے۔

34.                     برزہ کا طریقہ (Barza Method)

یہ  میرا ذاتی  طریقہ ہے۔ راقم کا تجربہ ہے کہ بچوں کو کھیل کھیل میں تعلیم دینا زیادہ مفید ہے۔ اساتذہ کے لیے ضروری ہے کہ بچوں کے علاقائی کھیلوں میں تعلیم کا پہلو نکالیں۔اسی طرح کسی نصاب یا کتاب کو فوکس کیے بغیر عملی سرگرمیوں کو اولیت دیں۔ یہ عملی سرگرمیاں اساتذہ اپنے تجربات اور بچوں کی علاقائی نفسیات کے مطابق خود تخلیق کریں گے۔ خوف کے مقابلے انعام کی لالچ سے بچے کی میموری کیپی سیٹی زیادہ ایکٹیو ہوتی ہے، اس لیے سزا میں صرف ظاہری ناراضگی ہونی چاہیے۔ اسی طرح جب بچہ غلطی کرے، تو بھی تعریف ہی سے حوصلہ افزائی کی جائے گی ۔ کچھ چیزوں میں رٹانا مفید ہوسکتا ہے؛ لیکن اس سے زیادہ ضروری ہے کہ تقریر کے ذریعہ سمجھانے کے بجائے عملی مشق کے ذریعہ تفہیم کی جائے۔ یاد رکھیں کہ بچوں کو عالم بنانے کے بجائے عامل بنائیں گے تو وہ زیادہ قبول کرسکیں گے۔ تفصیل کے لئے میرا مضمون دلچسپ تعلیمی سرگرمیاں پڑھیں۔

Print Friendly and PDF

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی

Post Add 1

Post Add 2