Header Add

طلبہ کی حوصلہ افزائی کی ضرورت و اہمیت

Print Friendly and PDF

طلبہ کی حوصلہ افزائی کی ضرورت و اہمیت

جوطلبہ وطالبات ذہین و فطین ،صالح وپرہینر گار اور اچھے اخلاق و عادات کے حامل ہوں اساتذہ کو ان کی ہمت افزائی کرتے رہنا چاہئے۔ اسی طرح جو طلبہ اچھے نمبر لیکر کامیابی حاصل کریں یا اچھی تقریر کریں ،یا کسی سوال کا برجستہ صحیح جواب دیں ،یا نماز کی برابر پابندی کریں یا کوئی اور نمایاں اور اچھا کارنامہ انجام دیں ان کی بھی ہمت افزائی کرنی چاہئے ۔

غزوۂ تبوک کے موقع پرمسلمانوں کو سخت مالی مشکلات کا سامنا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے تعاون کی اپیل کی تو حضرت عثمان غنی رضى اللہ عنہ نے ایک ہزاردینار پیش کئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان دیناروں کو اچھالتے جاتے اور فرما تے جاتے :

آج کے بعد عثمان غنی کو کوئی گناہ نقصان نہیں پہنچائے گا۔( فضا ئل الصحابۃ للامام احمد بن حنبل:رقم۷۳۸،۸۴۶)

اس موقع پر سب سے زیادہ ایثار ایک غریب اورمحنت کش صحابی نے کیا، جنھوں نے رات بھر پانی کھینچ کھینچ کردو صاع چھو ہارہ کمایا،پھراس میں سے ایک صاع چھو ہارہ اپنے اہل و عیال كے لئے رکھا اور ایک صاع آپ کی خدمت میں لاکر پیش کیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس جذبۂ ایثار کی بڑی قدر کی اور ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:

ان چھوہاروں کو قیمتی مالوں کے ڈھیر پر بکھیر دو ۔ (تفسیر ابن کثیر:۲؍۴۹۲)

اسی طرح جوطلبہ اپنی غربت اور پریشانیوں کے باوجود حصول تعلیم میں لگے ہوں ان کی دل جوئی اور ہمت افزائی کرنی چاہئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمار بن یا سررضى اللہ عنہ اور ان کے اہل خانہ کو توحید کی خاطر کفار کی اذیتیں برداشت کرتے دیکھتے تو ان کی دلجوئی اور ہمت افزائی کرتے ہوئے فرماتے: ’’ اَبْشِرُوْا آلَ يَاسِرْ فَاِنَّ مَوْعِدَ کُمُ الْجَنَّةُ‘‘ (المعجم الأوسط للطبراني: 2/ 141 , المستدرك على الصحيحين للحاكم : 3/ 438) اے یاسر کے گھر والو ! تمہیں خوشخبری ہو ، تمہارے لئے جنت کا وعدہ ہے ۔

اسی طرح اساتذہ ان غریب اور کمزور حال طلبہ کو تسلی دیں اور ان کی ہمت افزائی کرتے ہوئے ان سے کہیں : صبر کرو اور محنت سے پڑھوان شاء اللہ تمہارا مستقبل روشن ہوگا، کامیابی تمہاری قدم بوسی کرے گی ، اور تمہاری محنت، صبر اور قربانی کا پھل تمہیں ضرور ملے گا۔

حضرت عمر بن خطاب رضى اللہ عنہ حضرت ابن عباس رضى اللہ عنہ کی ان کے علم و فضل کی وجہ سے تعریف کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے۔’’نِعْمَ تَرْجُمَانُ الْقُرآنِ ابنُ عَبَّاس‘‘ ابن عباس کیا ہی بہترین قرآن کی تفسیر کرنے والے ہیں، اور کبھی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما تشریف لاتے تو فرماتے: ’’جَاءَ فَتَی الْکُهُولِ ، وَذُو اللِّسَانِ السَّؤلِ، وَالقَلْبِ الْعَقُولِ‘‘ ادھیڑ عمر والے کی متانت وسنجیدگی اور سوال کرنے والی زبان اورعقل رکھنے والے دل کامالک نوجوان آگیا۔

عبد الملک بن عبد العزیز بن ابی سلمہ الماجشون فرماتے ہیں کہ میں منذر بن عبد اللہ الحزامی کے پاس آیا ، اس وقت میں کمسن تھا، مگر میں نے جب ان سے گفتگو کی تو میری زبان میں فصاحت دیکھ کر انھوں نے میری جانب زیادہ التفات کیا، پھر پوچھا تم کون ہو ؟ میں نے کہا عبد الملک بن عبد العزیز بن ابی سلمہ ۔ انھوں نے فرمایا:’’ اُطْلُبِ الْعِلْمَ فَاِنَّ مَعَکَ حِذَاءَ کَ وَ سِقَاءَ کَ ‘‘۔  تم علم حاصل کرو، تمہارے پاس تمام اسباب موجود ہیں۔

امام زہری اپنے تلامذہ سے فرمایا کرتے تھے ’’لاَ تُحَقِّرُوا أنْفُسَکُمْ لِحَدَاثَةِ أنْفُسِکُمْ‘‘۔ تم لوگ اپنے آپ کو اپنی کم عمری کی وجہ سے حقیر مت سمجھو ۔

اچھے اساتذہ ہمیشہ اپنے طلبہ کی ہمت افزائی کرتے اور انھیں محنت کرنے کی ترغیب دیتے رہتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ تم ہی لوگ مستقبل میں امت کے کشتىبان ہوگے۔ قوم کی قیادت اور سیادت تمہیں لوگوں کو سنبھالنی ہے، تمہیں لوگوں میں کوئی محدث بنے گا ، کوئی مفسر، کوئی مفتی بنے گا،کوئی قاضی، کوئی مصنف بنے گا، کوئی صحافی۔تمہیں کو جامعات و مدارس اور دینی جماعتوں اور تحریکوں کی ذمہ داریوں کو سنبھالنا ہے، اس واسطے خوب محنت کرواور اپنے آپ کو ہر اعتبار سے ان ذمہ داریوں کو اٹھانے کا اہل بناؤ اگرتم لوگوں نے ابھی محنت نہیں کی اور اپنے آپ کو اس کے لئے تیار نہیں کیاتو تمہارا اور قوم کا بہت خسارہ ہو گا ۔

طلبہ کی ہمت افزائی کرنا ،انہیں علم کا شوق دلانا، ان کی خفتہ صلاحیتوں کو بیدار کرنا نہایت ضروری ہے، تا کہ وہ سلف کے بہترین خلف بن سکیں اور جو ذمہ داریاں ان پر امت کی اصلاح ،دینی ودنیوی قیادت،اسلامی عقیدہ وتہذیب کی حفاظت او ر علم کی نشرو اشاعت کے سلسلہ میں آنے والی ہیں انہیں بحسن و خوبی ادا کرسکیں۔

Print Friendly and PDF

Post a Comment

أحدث أقدم

Post Add 1

Post Add 2