Header Add

آسان نظامِ تدریس کی ضرورت و اہمیت

Print Friendly and PDF

آسان نظامِ تدریس کی ضرورت و اہمیت

اساتذہ ومعلّمات کی ذمہ داری ہے کہ جو کتابیں پڑھائیں انھیں طلبہ وطالبات کے سامنے آسان اورقابل فہم و قابل حفظ بنا کر پیش کریں ۔ اور تعلیم اور مدرسہ کا ذکر بچوں کے سامنے اس طرح کریں کہ انہیں مدرسہ آنے اور تعلیم حاصل کرنے کا شوق ہو۔

افسوس کہ برصغیر میں بچوں کو ان کے گھر والے ،محلہ پڑوس کے لوگ ،رشتہ دار اورخود بعض اساتذہ اورمدرسہ کے ذمہ داران بھی اس طرح ڈراتے ہیں کہ گویا بچے کو مدرسہ میں استاذ کے پاس پڑھنے کے لئے نہیں، بلکہ قصاب کے پاس ذبح کرنے کے لئے بھیجا جاتاہے ،اور مدرسہ تعلیم و تربیت کی جگہ اور درس گاہ نہیں، بلکہ بچوں کا مذبح ہے ۔ کسی بچے نے کوئی شرارت کی کہ امی یا ابو یا دادی کی آواز آئی :ارے یہ بہت شرارت کرنے لگا ہے، اس کا نام مدرسہ میں لکھادو ۔ وہاں ماسٹر صاحب یا میاں صاحب یا مولوی صاحب اس کو ٹھیک کر دیں گے ۔ کوئی کہتا ہے کہ وہاں اتنی پٹائی ہو گی کہ چھٹی کا دودھ یاد آجائے گا ۔کوئی مرغا بنانے ،کوئی پیٹھ پر اینٹ لادنے ، کوئی دیر تک اٹھک بیٹھک کرانے، کوئی کرسی بنانے ، اور کوئی کان اینٹھنے کا تذکرہ اتنے بھیانک انداز میں کرتا ہے کہ مدرسہ کا تصور بچہ کے ذہن میں کسی ایسے وحشت ناک جیل کی شکل میں ہوتا ہے۔ جس میں بچوں کو مارنے پیٹنے اور طرح طرح کی اذیتیں دینے کے لئے اساتذہ و معلّمین کے نا م پر انتہائی ظالم اور بے رحم قسم کے داروغہ اور پولیس کے لوگ رہتے ہوں۔

بعض اساتذہ و معلّمات بھی طلبہ و طالبات کو خوف زدہ کرتے اور ڈراتے رہتے ہیں کہ مدرسہ خالہ پھوپھی کا گھر نہیں ہے ، چمڑی ادھیڑ لیں گے ۔بعض معصوم بچوں کو بری طرح پیٹتے بھی ہیں ۔ بچوں کو ڈرانے کا یہ اسلوب اور طریقہ بالکل غلط اور انتہائی نقصان دہ ہے۔اس سے بچے پہلے ہی مدرسہ اور اساتذہ سے متنفر اور خوف زدہ ہو جاتے ہیں ،اور پھر یا تو وہ مدرسہ جاتے ہی نہیں، یا جاتے ہیں تو ڈرے اور سہمے ہوئے رہتے ہیں۔ جس سے ان کے اندر بزدلی و کم ہمتی پیدا ہو جا تی ہے، جو تعلیم و تربیت اور ہر ناحیہ سے بچوں کے لئے نقصان دہ ہے ۔

اس کے برخلاف سعودی عرب میں بچوں کو مدرسہ جانے سے پہلے تعلیم کی خوب تر غیب دی جاتی ہے ،مدرسہ ، اس کے ماحول اور وہاں کی مشغولیات کو اس انداز میں ان کے سامنے پیش کیا جاتا ہے کہ وہ بڑے شوق اور رغبت سے مدرسہ جاتے ہیں،اور مدرسہ میں بھی انہیں بڑے لاڈو پیارسے پڑھایا جاتا ہے،ان کے لئے کھیل اور تفریح کے مناسب سامان اور پروگرام ہو تے ہیں،وہاں انہیں چاکلیٹ اور مشروبات بھی دئے جاتے ہیں، جس سے طلبہ بلا کسی سختی اور مار پیٹ کے خود ہی مدرسہ جاتے ہیں، بلکہ اس كے لئے بے قرار رہتے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ تعلیم كے لئے ترغیب و تسہیل کا انداززیادہ صحیح اور بہتر ہے۔

بہت سے اساتذہ کچھ کتابوں کو پڑھانے سے پہلے ہی کہنے لگتے ہیں کہ یہ کتا ب بہت مشکل ہے اور کسی کے سمجھ میں آنے والی نہیں ہے، لیکن پھر بھی ہم پڑھا ئے دیتے ہیں، نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ طلبہ پہلے ہی سے مایوس ہو جاتے ہیں اور اس کے درس کو توجہ سے نہیں سنتے ، اس طرح وہ کتاب انکی سمجھ میں نہیں آتی، حالانکہ اگراستاذ صرف یہ کہے کہ یہ کتاب ذرا مشکل تو ہے لیکن آپ لوگ توجہ دیجئے ان شاء اللہ سمجھ میں آجائے گی، اور طلبہ درس توجہ سے سنیں ،تو اسے آسانی سے سمجھ سکتے ہیں ، کیو نکہ

؂         مشکلے نیست کہ آساں نہ شود               مرد باید کہ ہراساں نہ شود

بہر حال اساتذہ و معلّمات ا ور والدین وغیرہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کے سامنے مدرسہ اور تعلیم کا ذکر اچھے انداز میں کریں، اورمدرسے کا ماحول ایسا عمدہ ، خوش گوار اوردلچسپ بنا ئیں کہ بچے وہاں خود اپنے شوق اور رغبت سے جائیں، اور اساتذہ جو کتابیں یا مضامین پڑھائیں انھیں آسان اور قابل فہم بنا کر پیش کریں، طلبہ کی ہمت افزائی ،اور مدد کریں، اور کوئی ایسا قول و فعل ان سے صادر نہ ہو جس سے طلبہ کو تعلیم سے نفرت ہو اور وہ مدرسہ نہ جائیں یا چھوڑ دیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذرضى اللہ عنہ اورحضرت ابو موسی رضى اللہ عنہ کو جب یمن کی جانب روانہ کیا تو انھیں یہ نصیحت فرمائی:’’ يَسِّرَا ، وَلاَ تُعَسِّرَا وَبَشِّرَا ، وَلاَ تُنَفِّرَا ‘‘(صحيح البخاري حسب ترقيم فتح الباري : 4/ 79 , صحيح مسلم : 5/ 141) ۔لوگوں کے ساتھ نرمی سے پیش آنا ، سختی نہ کرنا ،ان کو بشارت دینا اور نفرت نہ دلانا،نیز آپ نے فر مایا ’’اِنَّ الدِّيْنَ يُسْرٌ، وَلَن يُّشَادَّ أحَدٌ اِلاغُلِبَ ،فَسَدِّدُوْا، وَقَارِبُوْا، وَاَبْشِرُوْا. ‘‘(البخاری: ۱؍۹۳) ۔بیشک دین آسان ہے ۔ جو شدت کا رویہ اپنائے گا وہ مغلوب ہو جائے گا ،اس لئے سیدھی اور میانہ روی اپناؤ، اور بشارت حاصل کرو۔


 

Print Friendly and PDF

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی

Post Add 1

Post Add 2