Header Add

والدین کے فرائض

Print Friendly and PDF

 والدین کے فرائض

بچوں کی  تربیت والدین کی اول ترین ترجیح ہونی چاہئے۔ اس کے متعلق  اللہ اوراس کر رسول کے احکامات بڑے واضع  اور بین ہیں۔

ارشاد باری ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ﴿سورہ تحریم:۶ 

اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر

حضرت عمرو سعید بن العاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:

والد کا اپنی اولاد کو اس سے بڑھ کر کوئی عطیہ نہیں کہ اسے اچھے آداب سکھائے۔ (جامع ترمذی و حاکم)

آج کے بچے کل کے معمار ہیں۔ تمام والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے زندگی میں کامیاب ہوجائیں  لیکن بچوں کی تربیت میں والدین کا کردار سرے سے  نا پید ہے۔ والدین  کی خواہش تو ہے کہ بچوں کی تربیت اچھی ہو لیکن عملی اقدامات صفر۔ اس کی کئی ایک وجوہات ہیں جن میں کم علمی، شعورکا فقدان اور والدین کی لاپرواہی شامل ہے۔

محض خواہش کرنا کسی مقصد میں کامیابی کے لئے کافی نہیں۔ اس کے لئے درست وقت پر درست فیصلہ اور مناسب حکمتِ عملی ایک ناگزیر عمل ہے۔  بچوں کی تربیت ایک  کُل وقتی سرگرمی ہے۔ اس میں معمولی  سی کوتاہی سخت نقصان دہ  ثابت ہوتی ہے۔ بچوں کی تربیت میں والدین کے کردار کو سمجھنے کے لئے کمہار کی مثال سب سے بہترین ہے۔ برتن بنانے کے لئے کمہارایسی مٹی کا چناو کرتا ہے جس میں چکنی مٹی اور ریت کا ایک خاص تناسب ہو۔ مٹی کو محنت سے گوندکر ایک قسم کا مکسچر تیار کرتا ہے۔ تیار مٹی کو گول چکے پر رکھتا ہے اور پیروں سے چکے کو گمانا شروع کردیتا ہے۔ برتن کی  تیاری کے سارے عمل میں وہ انتہائی چوکنا رہتا ہے۔ برتن کی گولائی، ستھرائی، کٹائی کے تمام امور میں ہمہ تن مصروف رہتا ہے اور اس سارے عمل میں اپنی ساری مہارتیں استعمال کرتے ہوئے برتن کی تخلیق کرتا ہے۔

مٹی کی مثال انسان کے نطفہ  سےہے۔  کمہار والدین ہیں، گول چکہ وقت ہے، برتن کی گولائی، ستھرائی، کٹائی بچے کی تربیت کے سارے مراحل ہیں۔ جس طرح کمہار کی لاپرواہی برتنوں کو خراب کردیتی ہے ، اسی طرح والدین کی لاپرواہی بچوں کو ضائع۔ جس طرح اچھے اورخوبصورت برتن بنانے کے لئے کمہار کے پاس تمام مہارتوں کا ہونا لازم ہے، اسی طرح نیک، باادب اور کامیاب انسان کی تکمیل کے لئے والدین کے پاس بچوں کی تربیت سے متعلقہ تمام مہارتوں کا ہونا ضروری ہے۔

اسی بات کے پیشِ نظر تجویز کردہ تربیتی نظام میں والدین کی موجودگی انتہائی ناگزیر ہے۔ والدین، ادارہ اور  معلم کو مسلسل رابطہ میں رہنا ہوگا  تاکہ شاگرد گھر میں بھی اُن آداب وفرائض کو جاری رکھیں جو کہ ادارہ کی طرف سے تفویض کئے گئے ہیں۔ والدین کی غیر موجودگی میں ان اہداف کا حصول ناممکن ہے جو بچے کی کردار سازی اور ذہنی استعدادوغیرہ کے لئے تجویز کئے گئے ہیں۔


Print Friendly and PDF

Post a Comment

أحدث أقدم

Post Add 1

Post Add 2