Header Add

استاد کے تدریسی فرائض و آداب

Print Friendly and PDF

استاد کے تدریسی  فرائض و آداب

اگرچہ بزرگان نے استادکے بہت سارے  آداب و فرائض بیان کئے ہیں لیکن میں یہاں پر اختصار کی خاطر چند ایک آداب کی طرف اشارہ کروں گا۔

خلوص نیت:

اسلام نے مسلمانوں کو زندگی کا ہر نیک کام خلوص نیت اور قربۃً الی اللہ کے قصد سے انجام دینے کی تاکید کی ہے۔ اگر نیت خالص ہو تو اس کا اثر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے باقی رہ جاتا ہے۔ جیسا مشہور حدیث نبوی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا :

إِنَّمَا الْأَعْمَالُ‏ بِالنِّيَّاتِ‏ وَ إِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَ رَسُولِهِ فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَ رَسُولِهِ وَ مَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوِ امْرَأَةٍ يَنْكَحُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْه. منیۃ المرید  ص   ۱۰۰

ترجمہ : بے شک اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے۔ اور ہر شخص کے لئے وہی کچھ حاصل ہوگا جس کا وہ نیت کرے۔ پس جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کرے تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول ہی کی طرف ہے۔ اور جو کوئی دنیا کی طرف ہجرت کرے تاکہ اسے حاصل کرے اور کسی عورت کی طرف ہجرت کرے تاکہ اس سے شادی کرلے تو اس کی ہجرت اسی چیز کی طرف ہے جس کی طرف وہ ہجرت کرتا ہے۔

علم و عمل :

معلم جو بھی  تعلیم دے یا علم حاصل کرے،  پہلے اس پر خود عمل کرے۔ اسلام کی نگاہ میں صرف اور صرف تعلیم کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔ بلکہ تعلیم کا مقصد عالم با عمل ہونا ہے۔ جیسا کہ امام صادق ؑ بے عمل عالم کی نصیحت کو سخت چٹان پر بارش کے قطرے سے تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا ہے :

إِنَ‏ الْعَالِمَ‏ إِذَا لَمْ‏ يَعْمَلْ‏ بِعِلْمِهِ زَلَّتْ مَوْعِظَتُهُ عَنِ الْقُلُوبِ كَمَا يَزِلُّ الْمَطَرُ عَنِ الصَّفَا۔ منیۃ المرید   ص ۱۸۱

ترجمہ : بے عالم جب اپنے علم پر عمل نہیں کرتا تو اس کی نصیحتیں دلوں سے اس طرح پھسل جاتی ہیں جس طرح  سخت چٹان سے بارش کے قطرے پھسل جاتے ہیں۔

توکل :

جو کوئی تعلیم دے یا علم حاصل کرے تو اس کے لئے توکل کو اپنا نصب العین قرار دینا چاہئے اور خدا وند عالم پر ہر طرح کا توکل اور بھروسہ ہونا چاہئے ۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمانِ مبارک ہے۔

أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَدْ تَكَفَّلَ‏ لِطَالِبِ‏ العلم بِرِزْقِهِ خَاصَّةً عَمَّا ضَمِنَهُ لِغَيْرِه۔ ‏کنز العمال ج۱۰/ص ۱۳۹

ترجمہ : بے شک اللہ تعالیٰ نے طالب علم کے لئے دوسروں کو رزق کی جو ضمانت دی ہے اس سے بڑھ کر ایک خاص کفالت کی ذمہ داری اٹھائی ہے۔

اخلاق حسنہ:

کیونکہ علمائے کرام کے کاندھوں پر عوام کی رہبری اور ہدایت کی ذمہ داری ہے لہذا ان کا اخلاق ایسا ہونا چاہئے کہ لوگ آسانی کے ساتھ ان سے مل سکیں۔ علماء کے لئے تواضع، انکساری اور نیک اخلاق کی بے حد ضرورت ہے۔ امام صادقؑ فرماتے ہیں۔

اطْلُبُوا الْعِلْمَ‏، وَتَزَيَّنُوا مَعَهُ بِالْحِلْمِ وَالْوَقَارِ، وَتَوَاضَعُوا لِمَنْ تُعَلِّمُونَهُ الْعِلْمَ، وَتَوَاضَعُوا لِمَنْ طَلَبْتُمْ مِنْهُ الْعِلْمَ، وَلَا تَكُونُوا عُلَمَاءَ جَبَّارِينَ؛ فَيَذْهَبَ بَاطِلُكُمْ بِحقّ كُم۔ ‏ اصول کافی ج۱/ص ۳۶

ترجمہ : علم حاصل کرو، اور علم کے ساتھ بردباری اور وقار کے ذریعے زینت دو،جسے تم علم سکھاؤ اور  جس سے تم علم حاصل کرو  اس کے سامنے انکساری اور تواضع اختیار کرو اور جابر و متکبر علماء میں سے نہ ہوجاؤ، کہیں تمہارا باطل تمہارے حق کو اپنے ساتھ نہ لے جائے۔

عزت نفس :

کیونکہ ایک معلم کے کاندھوں پر دین اور ہدایت امت کی عظیم ذمہ داری ہے لہٰذا معاشی اعتبار سے انہیں لوگوں کے درمیان اس طرح زندگی گزارنی چاہئے کہ وہ باعزت رہیں اور انہیں کوئی تحقیر کی نگاہ سے نہ دیکھے۔

مذکورہ آداب و اخلاقیات کے علاوہ ایک عالم اور طالب علم کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایسی تمام باتوں کا خیال رکھے جو ایک طالب علم اور عالم دین کی پہچان ہے اور اس کے شایان شان ہے جیسے نماز جماعت میں شرکت، اول وقت نماز کی ادائیگی، نیک کرداری، لوگوں کے ساتھ حسن سلوک، حقوق کی ادائیگی، مریضوں کی عیادت، غرباء و مساکین، مظلوم و ستم رسیدہ افراد کی دلجوئی اور سب لوگوں کے ساتھ محبت اور ہمدردی سے پیش آنا۔ اسی طرح لباس کی صفائی، چال چلن اور انداز گفتگو وغیرہ… یعنی ہر اعتبار سے محتاط رہنا چاہئے۔

استاد کے ساتھ مخصوص فرائض و آداب

استاد کے ساتھ مخصوص آداب و فرائض کومزید تین حصوں میں تقسیم کرنا ضروری ہے۔ خود استاد کے ذاتی آداب ، شاگرد سے متعلق آداب اور درس دینے کے دوران  کے آداب و فرائض۔

(الف)  استاد کے ذاتی آداب:

·        استاد کو اپنے شعبے میں اچھی طرح مہارت حاصل ہونی چاہئے۔ان تمام مہارتوں کا ذکر آخر میں کردیا گیا ہے۔

·        اس کے اندر سچے اور لائق طالب علم کی شناخت کا وصف ہونا چاہئے۔

·        شاگردوں کی نسبت علم پر عمل کرنا استاد کی زیادہ ذمہ داری بنتی ہے۔

·        صاحب اخلاق اور نمونہ عمل ہونا چاہئے۔

·        استاد کو چاہئے کہ علم نااہل لوگوں کے ہاتھ میں نہ جانے دے۔

·        تعلیم دینے کے لئے ہمیشہ تیار اور آمادہ رہے۔

·        حق گوئی سے کام لے تاکہ باطل کی پہچان ہو۔

·        امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جیسے اہم فریضے کو ادا کرنا فراموش نہ کرے۔

(ب) شاگرد سے متعلق استاد کے آداب و فرائض:

·        اسلامی آداب واخلاق کے  مطابق طلاب کی تربیت کرنا ۔

·        تقوی الہی کی طرف دعوت دینا ۔

·        شاگردوں کیساتھ تواضع انکساری سے پیش آنا۔

·        شاگردوں کے درمیان عدالت اورمساوات کا خیال رکھنا ۔

·        ان کی ترقی کیلئے  ہر ممکن کوشش کرنا ۔

(ج) درس سے متعلق استاد کے آداب وفرائض :

·        استاد کو کلاس میں داخل ہونے سے پہلے درس کی تیاری،لباس اوربدن کی صفائی،سنجیدگی اوروقار کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔

·        تدریس کے لئے گھر سے نکلتے وقت خداکو یاد کرے اورپیغمبر ؐ سے منقول دعا پڑھے ۔

·        کلاس میں داخل ہوتے وقت طلباء کو سلام کرے اورخندہ پیشانی سے پیش آئے۔

·        اگر کسی سوال کا جواب نہ جانتا ہو تو مبہم جواب دینے سے بہتر ہے کہ لاعلمی کا اظہار کرے اور یہ کوئی عیب نہیں ہے۔جیسا حضرت علی ؑ کا ارشاد گرامی ہے : جب تم سے ایسی چیز کے بارے میں پوچھا جائے جسے تم نہ جانتے ہو۔ تو اس سے فرارکرو ۔ سوال کیاگیا: کیسے فرارکریں ؟ تو فرمایا: یہ کہو کہ خدابہتر جانتاہے ۔منیۃ المرید، ص۱۱۰


Print Friendly and PDF

Post a Comment

أحدث أقدم

Post Add 1

Post Add 2