Header Add

تقوی

Print Friendly and PDF

 

تقوی

تقویٰ انسانی زندگی کا سب سے قیمتی زیوراورسب سے زیادہ گراں قدر متاع ہے۔ اگر انسان بڑاہی دولت مند اور حیثیت ووقار کا مالک ہے لیکن وہ لا إلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ کا اقرار نہیں کرتا تو جس طرح اس کی دولت مندی اس کی حیثیت، اس کا وقار، اس کا جاہ وجلال اور اس کی شان وشوکت کسی کام کی نہیں بالکل اسی طرح اگر کوئی لا إلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ کا اقرار کرتا ہے لیکن اس کے دل میں تقوی کی جوت اور خوشبو نہیں، اس کے اندر تقویٰ کی روشنی نہیں جگمگاتی اور اس کے من میں خداترسی کا جذبہ نہیں تو وہ بھی اللہ کی نظر میں قابل احترام نہیں، حقیقت تویہ ہے کہ جس مسلمان کے اندر تقویٰ اور پرہیزگاری کی خوبی نہیں پائی جاتی، وہ صرف نام کا مسلمان ہے، کام کا نہیں ۔

ایسا کیوں؟ ایسا اس لىے کہ اگر مسلمان ایک جسم ہے تو تقویٰ اس کی روح ہے اور یہ ظاہر ہے کہ جس جسم کے اندر روح نہیں وہ جسم کسی کام کا نہیں۔ اس طرح اگر کہاجائے کہ مسلمان تقویٰ کے بغیر لاشۂ بےجان ہے تو اس میں ذرابھی مبالغہ آرائی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تک جتنے بھی انبیاء ورسل آئے، جتنے بھی مجددین ومصلحین آئے، سب نے تمام انسانوں کو تقویٰ کی جوت سے اپنی زندگی کا گوشہ گوشہ منور کرنے کا حکم دیا۔ قرآن پاک میں رب کائنات نے بے شمار جگہوں پر اس کی تاکید کی ہےاوراحادیث نبویہ میں بھی تقویٰ اختیار کرنے کی ہدایت جا بجادی گئی ہے۔

جس طرح سمندر پانی کے بغیر سمندر نہیں رہ سکتا، بیابان میں تبدیل ہوجاتا ہے، اسی طرح جس دل میں تقوی کا گلشن نہ سجاہو، وہ دل ویران ہو جاتا ہے، اور وہ شیطان کی آماجگاہ اور برائیوں کا مسکن بن جاتا ہے۔

ہم قرآن وحدیث اورآثار صحابہ کی روشنی میں دیکھیں کہ یہ تقوی ٰہے کیا چيز اور اس کے فضائل کیا ہیں؟

تقویٰ کے لغوی معنی بچنے اور حفاظت کرنے کے ہیں اور دینی اصطلاح کی روسے طاعت کے کاموں میں اخلاص اور معصیت کے تمام کاموں سے احتراز وپرہیز کرنے کا نام ہے تقویٰ۔ (التعریفات:65)

کلام پاک کے اندر تقوی پانچ معانی میں استعمال ہواہے:

1.    خوف وخشیت الہٰی:

ارشاد ربانی ہے:

( يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ ) [الحج: 1]

لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو! بلا شبہ قیامت کا زلزلہ بہت ہی بڑی چیز ہے۔

2.    عبادت:

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

( يُنَزِّلُ الْمَلَائِكَةَ بِالرُّوحِ مِنْ أَمْرِهِ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ أَنْ أَنْذِرُوا أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاتَّقُونِ ) [النحل: 2]

وہی فرشتوں کو اپنی وحی دے کر اپنے حکم سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاھتا ہے اتارتا ہے کہ تم لوگوں کو آگاہ کر دو کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، پس تم مجھ سے ڈرو۔

3.    معاصی اور گناہ سے اجتناب:

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

( يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ ظُهُورِهَا وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَى وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ) [البقرة: 189]

لوگ آپ سے چاند کے بارے میں سوال کرتے ہیں، آپ کہہ دیج کہ یہ لوگوں (کی عبادت) کے وقتوں اور حج کے موسم کے ل ہے،(احرام کی حالت میں) اور گھروں کے پیچھے سے تمہارا آنا کچھ نیکی نہیں، بلکہ نیکی والا وہ ہے جو متقی ہو۔ اور گھروں میں تو دروازوں سے آیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔

4.     توحید:

ارشاد خداوندی ہے:

( إِنَّ الَّذِينَ يَغُضُّونَ أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ أُولَئِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَى لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ ) [الحجرات: 3]

 بے شک جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم کے حضور میں اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے پرہیزگاری کے ل جانچ لیا ہے۔ ان کے ل مغفرت اور بڑا ثواب ہے۔

5.    اخلاص عمل اور اخلاص نیت:

رب کریم کا ارشاد ہے:

( ذَلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ ) [الحج: 32]

یہ سن لیا اب اور سنو! اللہ کی نشانیوں کی جو عزت و حرمت کرے تو یہ اس کے دل کی پرہیزگاری کی وجہ سے ہے۔

بزرگان دین وملت! تقوی کے ان پانچوں معانی پر اور ان معانی پر پیش کی گئی آیات قرآنیہ پر ذرا غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ دراصل انسان اس لیے مسلمان بنتا ہے تاکہ وہ تقویٰ اختیار کرے کیوں کہ جو توحید اختیار نہیں کرتا بلکہ مسلمان ہونے کے باوجود قبروں اور مزاروں پر جاجا کر ماتھا ٹیکتا رہتا ہے، وہ مشرکین کے زمرے سے نکل نہیں پاتا۔ جو اللہ کی عبادت بجا نہیں لاتا، وہ اللہ کی نظر میں سب کچھ ہوسکتا ہے لیکن صحیح مسلمان نہیں ہوسکتا، جو معاصی سے، گناہوں سے اور گناہ کے کاموں سے اجتناب نہیں کرتا وہ اللہ کے وعدۂ جنت کا مستحق نہیں بن پاتا، جو اپنے اعمال میں اخلاص نیت کو بروئے کار نہیں لاتا اور جس کا دل خوف خداوندی اور خشیت الہٰی سے لرزاں اورترساں نہیں رہتا، وہ ہمیشہ شیطان کے نرغے میں رہتا ہے ۔ گویا تقوی ہی سے انسان مسلمان رہ جاتا ہے ورنہ دائرۂ دین وشریعت سے اس کے خارج ہو جانے کا خدشہ ہمہ وقت لگا ہی رہتا ہے۔

سیرتِ نبوی کی روشنی میں تقوی کا مفہوم

ایک آدمی صحابی رسول حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھتا ہے:اے صحابی رسول!ذرا مجھے بتا دیجئے کہ یہ تقویٰ کیا ہے ؟

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اس سے پوچھتے ہیں :کیا تم کبھی ایسی راہ سے گذرے ہو جس کے دونوں طرف کانٹےدار جھاڑیاں ہوں۔

وہ آدمی کہتا ہے : ہاں اے صحابی رسول ! ایسا اتفاق تو بارہا ہوا ہے ۔ پھر تم کیسے اس راہ سے گذرے ؟ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سوال کرتے ہیں۔ وہ آدمی کہتا ہے : اپنا دامن سمیٹتے، اپنے آپ کو کانٹوں کی چبھن سے بچتے بچاتے بےحد ہشیاری سے قدم بڑھاتے ہوئے ، ڈرتے ڈرتے گذر جاتا ہوں۔

صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:یہی تو تقویٰ ہے۔ (الدرالمنثور:1/61)

فضائل تقویٰ:

اللہ تعالیٰ کا فر مان باری ہے:

( إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ ) [المائدة: 27]

اللہ تعالیٰ تقویٰ والوں کا ہی عمل قبول کرتا ہے۔

ارشاد ہے:

( إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ) [الحجرات: 13]

اللہ کے نزدیک تم سب میں باعزت وه ہے جو سب سے زیاده ڈرنے والا ہے۔

ربِّ کائنات کا وعدہ ہے:

( وَيُنَجِّي اللَّهُ الَّذِينَ اتَّقَوْا بِمَفَازَتِهِمْ لَا يَمَسُّهُمُ السُّوءُ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ) [الزمر: 61]

اور جن لوگوں نے پرہیزگاری کی انہیں اللہ تعالیٰ ان کی کامیابی کے ساتھ بچا لے گا، انہیں کوئی دکھ چھو بھی نہ سکے گا اور نہ وه کسی طرح غمگین ہوں گے۔

تقویٰ جنت کا ٹکٹ ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

( تِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي نُورِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَنْ كَانَ تَقِيًّا ) [مريم: 63]

یہ ہے وہ جنت جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے انہیں بناتے ہیں جو متقی ہوں۔

دوستو!آج ہر طرف انارکی پھیلی ہوئی، ہر طرف دہشت وخوف کا ماحول ہے، غبن اور کرپشن عالمی منظر نامہ بن چکا ہے۔ برائیاں فروغ پارہی ہیں اور ان کی سرپرستی حکومتیں کررہی ہے۔ پوری دنیا ابلیسی نظام حیات کے تار عنکبوت میں پھنستی جارہی ہے۔ بحر وبر اور آسمان وزمین فساد وبگاڑ کے شکنجے میں ہیں۔ لاکھ لاکھ تدبیریں ہورہی ہیں ان سب برائیوں کو دور کرنے کی۔ ہزاروں علاج سوچے جارہے ہیں اس بیماری کے لیے۔ لیکن دنیا والو! سن لو اور یاد رکھو کہ جب تک تمام لوگوں کے اندر تقویٰ کی جوت نہیں جگائی جائےگی یہ کرپشن ختم نہیں ہو گی۔ جب تک خداترسی کا فروغ واشاعت نہیں ہوگا، تب تک تمہاری کوئی تدبیر کام نہیں آئےگی۔ گھوٹالے ہوتے رہیں گے۔ حقوق تلف ہوتے رہیں گے۔غبن کا سامراج پھیلتا چلا جائےگا اور ایک دن ایسا آجائےگا جب تمہاری دنیا تباہ وبرباد ہو جائے گی اور تمہیں حسرت ویاس اور قنوطیت کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئےگا۔ لہذا آؤ، اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ اپنے ہر کام میں خداترسی کا جلوہ دکھاؤ۔ تمہاری ہر بات بنےگی اور یہ دنیا تمہاری غلام ہوگی۔ اللہ کرے کہ ہمارے دلوں میں تقویٰ کی روشنی جگمگا اٹھے کہ یہی سب سے قیمتی اور بیش بہا متاع حیات ہے !!

Print Friendly and PDF

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی

Post Add 1

Post Add 2