Header Add

دورانِ تدریس بہترین اسلوب کیا ہونا چاہئے؟

Print Friendly and PDF

دورانِ تدریس  بہترین اسلوب کیا ہونا چاہئے؟

درس کی تفہیم اور مسائل کی توضیح میں اساتذہ کو ہمیشہ ایسی زبان استعمال کرنی چاہئے جو عام فہم اور طلبہ وطالبات کے معیار کے مطابق ہو ،تا کہ وہ ان کی باتوں کو آسانی سے سمجھ سکیں ۔مشکل الفا ظ ، دوسری زبانوں کے غیر مانوس کلمات اورمقفیٰ ومسجع عبارتوں کا درس میں استعمال کرنا ٹھیک نہیں ، اللہ تعالیٰ نے ہر قوم میں رسول اسی قوم میں سے مبعوث فرمایا، جو ان کی زبان سے اچھی طرح واقف ہوتا تھا ، اور انھیں کی زبان میں انھیں وعظ و نصیحت کرتا ،تعلیم دیتااور دعوت و تبلیغ کرتا۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ   ۔ إبراهيم: ٤

اور ہم نے ہر نبی کو اس کی قومی زبان میں ہی بھیجا تاکہ ان کے سامنے وضاحت سے بیان کردے۔

جب اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کوبھیجتے وقت اس بات کا لحاظ رکھا کہ وہ اپنی قوم کی زبان سے اچھی طرح واقف ہوں، اور انبیاء علیہم السلام اپنی قوم کوانہیں کی زبان میں تعلیم دیتے تھے تو اساتذہ اور معلّمات کو بھی اس کا لحاظ رکھنا چاہئے، اور تدریس وتفہیم میں طلبہ کی زبان اور ان کے معیار کو ملحوظ رکھنا چاہئے۔ ماہرین تعلیم کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ بچوں کی ابتدائی تعلیم ان کی مادری زبان میں ہی ہونی چاہئے، تاکہ ان کو سمجھنے میں سہولت ہو اور زبان اور مسائل کے سمجھنے کا ڈبل بوجھ ان پر نہ پڑ ے ۔

درس کے وقت آواز کاواضح اور بلند ہونا

اساتذہ کی آواز درس دیتے وقت اتنی بلند ہونی چاہئے کہ کلاس کے تمام طلبہ وطالبات اسے بآسانی سن سکیں، اور زبان اتنی واضح ہو نی چاہئے کہ سب بآسانی سمجھ سکیں ۔

بعض اساتذہ و معلّمات درس کے وقت اپنی آواز اتنی پست رکھتے ہیں کہ طلبہ و طالبات صحیح طریقہ سے ان کی باتیں نہیں سن پاتے،ایسی صورت میں ان کے درس کاخاطر خواہ فائدہ نہیں ہوتا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ دیتے تھے توآپ کی آواز بلند ہوتی تھی۔ حضرت جابررضى اللہ عنہ فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ دیتے اور قیامت کا ذکر فرماتے تو آپ کا غضب شدید ہوجاتا اور آپ کی آواز بلند ہوجاتی۔ (صحيح مسلم : 3/ 11)

اور حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے پیچھے رہ گئے ۔ آپ جب ہمارے پاس پہونچے تو نماز کا وقت تنگ ہوگیا تھا، اور ہم وضو کررہے اور اپنے پاؤں پر مسح کر رہے تھے۔ آپ نے یہ دیکھ کر بلند آواز سے پکار کر دویا تین بار فرمایا:’’ وَيْلٌ لِلأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ ‘‘. (رواہ البخاری :۱؍۸۴۳) آگ کے عذاب کی خرابی ہے ان ایڑیوں كے لئے جو خشک رہ جا ئیں ۔

اس سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ بوقت ضرورت بات کو مکرر سہ کرر بیان کرنا چاہئے وہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ معلم کی آواز بقدر ضرورت بلند ہونی چاہئے تاکہ سارے مخاطبین سن سکیں۔ لہٰذا اساتذہ و معلّمات کو چاہئے کہ درس میں اپنی آواز اسقدر بلند رکھیں کہ تمام طلبہ وطالبات بآسانی اسے سن سکیں اور مناسب آواز اور دلکش انداز میں شوق ورغبت سے پڑھائیں، بے دلی سے اور ایسی پست آواز میں نہ پڑھائیں کہ ان کی بات طلبہ کی سمجھ میں نہ آئے ، جو اساتذہ و مدرسین ایسا کرتے ہیں وہ عموما ناکام رہتے ہیں،ہم نے ایک عرب استاذ کو دیکھا ،جب وہ کلاس میں آتے تو اپنی جگہ پر بیٹھتے ہی کتاب میز پر رکھتے اور سرنیچا کر کے پڑھانے لگتے ، ان کی آواز اتنی پست ہوتی کہ طلبہ کو برابر سنائی نہیں پڑتی اور ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کیا کہتے ہیں ،اورجب درس طلبہ کی سمجھ میں نہیں آتا اور دیکھتے کہ شیخ سر اوپر اٹھا کر دیکھتے بھی نہیں ہیں تو آہستہ آہستہ کلاس سے بھاگ نکلتے اور کبھی کبھی صورت حال یہ ہوتی ہے کہ صرف دو چار طلبہ ہی کلاس میں رہ جاتے ۔

بہر حال اساتذہ کی آواز بقدر ضرورت بلندہو نی چاہئے ،اور انھیں تمام طلبہ سے مخاطب ہونا اورچاروں طرف دیکھنا چاہئے ، بولنے کی رفتار درمیانی اور معتدل ہو نی چاہئے، نہ بہت تیز ہو کہ طلبہ تمام باتیں اپنی گرفت میں نہ لے سکیں اور نہ اتنی سست ہو کہ وہ اکتا جائیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے با ر ے میں وارد ہے کہ جب آپ گفتگو فرماتے تو آپ کا ایک ایک لفظ اس طرح واضح ہو تا تھا کہ گننا چاہیں تو گن سکتے تھے۔

درس اور وعظ ونصیحت میں اس کا بھی لحاظ رکھنا چاہئے کہ آواز اس قدر بلند ، اور کرخت نہ ہو کہ سننے والوں پر گراں اور ان کے ذوق سماعت پر بار گزرے۔ بے تحاشہ چیخنے کی وجہ سے ہی گدہے کے بارے میں کہاگیا ہے : إِنَّ أَنکَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيْرِ  (لقمان: ١٩) بیشک گدھے کی آواز سب سے خراب آواز ہے۔

اس واسطے درس میں بے تحاشہ چیخنے سے بھی احتراز کرنا چاہئے اور مناسب ودلکش آواز میں درس دینا چاہئے ۔


 

Print Friendly and PDF

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی

Post Add 1

Post Add 2