Header Add

بچوں کو ڈپریشن سے کیسے بچائیں؟

Print Friendly and PDF

بچوں کو ڈپریشن سے کیسے بچائیں؟

والدین اور استاتذہ اکرام کے فرائض

چار برس پہلے تک علی انتہائی ذہین اور ہوشیار طالب علم تھا۔ ہر امتحان میں امتیازی حیثیت سے پاس ہوتا۔ کھیل کود میں بھی بھر پور حصہ لیتا۔  علی کے تمام استاتذہ اس سے انتہائی مطمئن تھے۔ والدین کو بھی پوری امید تھی کہ ان کا بیٹا زندگی میں نہ صرف ایک کامیاب انسان بنے گا بلکہ ان کے لئے بڑھاپے کا سہارا بھی بنے گا۔ مگر پھر اچانک  پتا  نہیں ایسا کیا ہوا کہ اس گھر کی خوشیوں  غم میں بدل  گئی۔ ان کی زندگی سے خوشی، امنگ اورسہانے  مستقبل کے خواب سب کچھ بکھر گئے۔ علی میٹرک کے امتحان میں بُڑی طرح سے فیل ہوگیا۔ چہرے کا رنگ پیلا پڑ گیا اور جسم سوکھ کر کانٹا بن گیا۔

والدہ کا خیال تھا کہ  علی کے ددھال میں سے کسی نے بچے پر جادو ٹونا کردیا ہے۔ لیکن علی کے والد ایک روشن خیال اورپڑھے لکھے آدمی تھے۔ انہوں نے اپنے ایک دوست کو یہ ساری صورحال بتائی جہنوں نے کسی الیفائڈ سائیکا ٹرسٹ کو دِکھانے کا مشورہ دیا۔ دو ماہ کے علاج کے بعد یہ راز کھلا کہ علی ایک دوشیزہ کے عشق میں گرفتار ہو گئے تھے۔ لڑکی نے انکار کردیا۔ اس یک طرفہ عشق سے وہ بڑی طرح ڈیپریشن کا شکار ہوگیا اور والدین کو اس کی زندگی کے لالے پڑ گئے۔

یہ صرف  علی کی کہانی نہیں بلکہ ہزاروں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اسی طرح کے ڈیپریشن کا شکار ہوکر ماں باپ کے لئے عذاب بن جاتے ہیں۔آغا خان یونیورسٹی کراچی کی جانب سے جاری کردہ ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق ڈپریشن اور اینزائٹی پاکستان میں تیزی سے پھیلنے والے امراض یا مسائل میں شامل ہیں جن کا سب سے زیادہ شکار نوجوان نسل ہے۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں ڈپریشن کے مریضوں کی شرح 22 سے 60 فیصد تک نوٹ کی گئی ہے جو زیادہ آبادی والے شہروں جیسے کراچی اور لاہور میں بلند ترین ہے، ایک اندازے کے مطابق ذہنی امراض کی شرح اگر اسی طرح بڑھتی رہی تو 2050 تک پاکستان ذہنی مسائل و بیماریوں کے حوالے سے عالمی ریکنگ میں چھٹے نمبر پر ہوگا۔

اگرچہ پاکستان کے بیشتر شہروں میں ابھی تک جوائنٹ فیملی سسٹم کا راج ہے اور کسی بھی طرح کی بیماری کی صورت میں مریض کو فیملی و عزیز و اقربا کی مکمل سپورٹ حاصل ہوتی ہے، مگر ہمارا فرسودہ سماجی نظام نفسیاتی و ذہنی عوارض کو پاگل پن قرار دے کر مریض کو علاج و ریکوری میں سپورٹ کرنے کے بجائے اسے مزید تنہا کردیتا ہے۔ تاہم اگر دیکھا جائے تو ڈپریشن اور اینزائٹی دراصل پاگل پن نہیں بلکہ ذہنی دباؤ  ہے۔

پاکستانی معاشرے میں ذہنی امراض کے بارے میں آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے جس کی ایک بڑی وجہ ہمارا فرسودہ سماجی نظام ہے جہاں اولاد یا رشتوں سے زیادہ روایات، رسوم اور باہر والوں کی آرا کو اہمیت دی جاتی ہے اور معمولی سے لے کر شدید نوعیت کے نفسیاتی امراض کو گھروں میں ہی دبادیا جاتا ہے اور ایسے مسائل سامنے نہ لانے کی ایک وجہ "لوگ کیا کہیں گے" بھی ہے۔

ڈپریشن کیا ہے؟

ڈپریشن ایک مخصوص کیفیت کا نام ہے جس میں مریض خود کو تنہا، اداس اور ناکام تصور کرتا ہے، یہ مرض واقعات کے منفی رخ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے اور اس کیفیت میں اگر مریض کو فیملی یا دوست و احباب کی طرف سے مناسب مدد نہ ملے اور بروقت علاج پر توجہ نہ دی جائے تو مریض کی ذہنی حالت بگڑنے لگتی ہے جو اس کی سوشل اور پروفیشنل زندگی دونوں کے لیے مہلک ہے۔

اینزائٹی کو ڈپریشن کی جڑواں بہن کہا جاسکتا ہے۔  ڈپریشن مریض کو ایک ناکام انسان کے طور پر پیش کرتا ہے تو اینزائٹی ان منفی خیالات و تصورات کو بڑھا کر مریض میں مسلسل خوف اور اندیشوں کی کیفیت کو پروان چڑھاتی ہے ۔ یوں زندگی میں ترقی کا سفر رک کر جمود کا باعث بنتا ہے اور یہ جمود رفتہ رفتہ انسان کی صلاحیتوں کے ساتھ اس کے خوشیوں، خوابوں، رشتوں اور محبتوں کو کسی دیمک کی طرح چاٹ کر مریض کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔

اگرچہ ڈپریشن کا مرض ہر عمر کے افراد میں نوٹ کیا گیا ہے مگر عالمی اداروں کی جانب سے جاری کردہ رپورٹس کے مطابق 2011 کے بعد 18 سے 30 سال کی عمر کے نوجوانوں میں اس مرض کی شرح تشویش ناک حد تک بڑھ رہی ہے۔

نئی نسل میں ڈیپریشن کی وجوہات

اس کی کئی اور مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں سے درج ذیل وجوہات بھی ہیں۔

1-انٹر فیملی میرج

اگرچہ آج ہم 21 ویں صدی کے ڈیجیٹل دور میں جی رہے ہیں مگر پھر بھی پاکستان میں ایسے پڑھے لکھے خاندانوں کی کمی نہیں ہے جو ذات پات کے معاملے میں بہت سخت ہیں اور خاندان سے باہر شادی کے خلاف ہیں۔  ایسی زبردستی کی شادیوں کی صورت میں شوہر اور بیوی میں شاذ و نادر ہی ذہنی ہم آہنگی ہو پاتی ہے اور گھر کے ماحول کے ساتھ ہی ان کے بچے بھی شروع سے ایک تناؤ یا کھچاؤ کا شکار رہتے ہیں۔  ایسے بچوں میں 18 سال کی عمر کے بعد ذہنی امراض کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے کیونکہ ان میں مسائل کو خود حل کرنے کی صلاحیت اور خود اعتمادی کم ہوتی ہے اور وہ یونیورسٹی یا بعد ازاں ملازمت میں جلد ذہنی دباؤ لے کر ڈپریشن کا شکار ہوجا تے ہیں۔

اسلام آباد کی ایک معروف کلینیکل سائیکاٹرسٹ ذوفشاں قریشی کے مطابق ڈپریشن اور اینزائٹی وراثتی امراض ہیں اور یہ ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہو سکتے ہیں۔  اس کے علاوہ خواتین کے حمل کے دوران ماں اگر شدید دباؤ والے ماحول میں رہی ہو تو خاص طرح کے ہارمون ’کارٹیسال‘ پر پڑنے والے اثرات کی وجہ سے بچے کے دماغ پر منفی اثر پڑتا ہے اور مستقبل میں بچے کے کسی ذہنی مرض کے شکار ہونے کا خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے۔

اس کے علاوہ اگر پیدائش کے بعد 2 سے تین سال کے ابتدائی عرصے میں والدین سے بچوں کی پرورش میں کوئی غفلت یا کوتاہی سر زد ہو انہیں لاڈ پیار میں بگاڑا جائے یا حد سے زیادہ سختی کی جائے تو ایسے بچے نوجوانی میں ڈپریشن یا دیگر نفسیاتی مسائل کا شکار رہتے ہیں جو بعد ازاں شادی کے بعد تعلقات پر بھی براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔

2 - معاشی مسائل

پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں ڈپریشن کی شرح تیزی سے بڑھنے کی ایک بڑی وجہ معاشی مسائل بھی ہیں، بڑے شہروں میں آبادی کے پھیلاؤ اور پر تعیش لائف اسٹائل کو اختیار کرنے کے جنون میں چیلنجز بڑھ گئے ہیں۔ اسٹیٹس کو کی دوڑ میں ہر کوئی جائز و ناجائز طریقے سے زیادہ سے زیادہ کما کر ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے جنون میں اچھائی اور برائی میں تمیز بھولتا جا رہا ہے۔ اس سے نہ صرف سماجی نظام زوال کا شکار ہے بلکہ خونی رشتوں میں بھی خود غرضی اور مفاد پرستی بڑھتی جارہی ہے۔

ایسے میں حساس فطرت اور درد مند دل رکھنے والے افراد تیزی سے ذہنی امراض کا شکار ہو رہے ہیں ۔ کیونکہ ہر موڑ پر انسان کے روپ میں ایک بھیڑیا اسے نوچنے کو بیٹھا ہے۔ ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور آفس میں سینئر افراد یا باس کے خراب رویوں کے باعث بھی نوجوان نسل تیزی سے ڈپریشن کا شکار ہو رہی ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق ہر  100  میں سے 10 نوجوان اپنے نفسیاتی مسائل کے باعث  کسی نہ کسی تھراپسٹ ، ڈاکٹر یاں حکیم کے زیر علاج ہیں۔

3 - جنریشن گیپ

گزشتہ چار، پانچ دہائیوں کے دوران انسان نے سائنس و ٹیکنالوجی خصوصا مصنوعی ذہانت کے میدان میں جو سنگ میل عبورکیے ہیں وہ پچھلی 2 صدیوں کی مجموعی ترقی پر بھاری ہیں۔  الیکٹرانکس آلات اور مصنوعی ذہانت کی وجہ سے ہماری زندگیوں میں جو انقلاب آیا ہے وہ کسی سے ڈکھا چھپا نہیں ہے۔  مگر دیکھا جائے تو اس تیز ترقی کے فوائد کے ساتھ شدید نقصانات بھی سامنے آئے ہیں اور ترقی یافتہ ممالک کے بعد اب ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک میں بھی سماجی و معاشرتی نظام تیزی سے زوال کا شکار ہے۔

آج کی نسل ایک ڈیجیٹل دور میں جی رہی ہے ۔ جو ایک کلک یا موبائل پر چند پنچز سے ہر چیز کا حصول  چاہتی ہے۔  والدین ابھی تک پرانی اقدار و روایات کے حامل ہیں۔  اس وجہ سے والدین اور بچوں میں فاصلے بہت بڑھ گئے ہیں۔  نہ تو والدین بچوں کے رجحانات کو دیکھ کر خود کو بدلنے پر آمادہ ہیں اور نہ ہی اولاد ان کے پرانے طور طریقوں اور روایات کو قبول کرنا چاہتی ہے۔  نتیجتاً ہر گھر میں ایک باغی یا احساسات سے عاری بچہ جنم لے رہا ہے ۔ جس کی زندگی کا واحد مقصد صرف اور صرف اپنی خواہشات کی تسکین ہے۔

3 - سوشل میڈیا

فیس بک،ٹوئٹر، انسٹا گرام اور سماجی رابطے کی دیگر تمام ویب سائٹس بنانے کا مقصد دنیا بھر کے افراد کو آپس میں جوڑ کر عالمی امن کو فروغ دینا تھا مگر ہماری نوجوان نسل نے انہیں ایک 'پیرالل لائف"کے طور پر لیا۔ جہاں ہر کوئی اپنی اصل شخصیت کو چھپائے، ماسک ڈالے مسٹر و مس پرفیکٹ بنا بیٹھا ہے۔  جس سے نئی نسل میں نفسیاتی و ذہنی عوارض بڑھ گئے ہیں ۔ لوگ اپنے نقائص کے ساتھ خود کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ اپنوں اور قریبی رشتوں سے فاصلے بہت بڑھ گئے ہیں اور گھروں میں لوگ ساتھ بیٹھ کر بات چیت کے بجائے اسمارٹ فونز پر مصروف رہتے ہیں۔

موبائل فونز کے بہت زیادہ استعمال سے دماغ پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔  قوت برداشت کم ہونے سے نوجوان نسل میں ڈپریشن و اینزائٹی کی شرح تیزی سے بڑھی ہے ۔

والدین کے فرائض

اس انتہائی نازک مسئلہ پر والدین قطعاً کوئی توجہ نہیں دے رہے۔ والدین اپنی ذمہ داریاں سمجھنے کی بجائے خود سوشل میڈیا اور موبائل پر وقت گزارنا پسند کرتے ہیں۔ بچے اگر ذیپریشن کا شکار ہیں ، توں اس کی وجہ والدین کی بے توجہی ہے۔ اگر ماں باپ خود ڈیپریشن کا شکار ہیں ، تو اس کی وجہ ان کی اپنی حماقت ہے۔ کیونکہ بچے  اگر غلط ہیں تو والدین کا فرض ہے کہ ان کو سیدحا راستہ دِکھائیں۔

یہاں اختصار کے ساتھ  چند اقدامات تجویز کئے جارہے ہیں۔ اگر والدین اوراستاتذہ اکرام ان پر عمل کریں تو بچوں کو ڈیپریشن سے بچانا آسان ہو گا۔ تفصیل جاننے کے لئے میرا مضمون  بچوں  کی تربیت  مِیں والدین کیا غلطیا ں کرتے ہیں؟ پڑھیں۔

·        بچوں کے ساتھ دوستانہ رویہ اختیار کریں تاکہ وہ  اپنے دل کی بات آپ تک پہنچا سکیں۔ روزمرہ زندگی میں کئی ایسے مواقع آتے ہیں، جہاں بچوں کو راہنمائی کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔

·        بچے  کی رائے کا احترام کریں۔ اگر وہ غلطی پر ہے تو انتہائی سمجھداری سے اسے قائل کریں اور اچھائی و بڑائی میں موجود فرق  واضع طور پر بیان کریں۔

·        بچے کی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھیں۔ وہ کیا سوچ رہا ہے، کیا دیکھ رہا ہے، کیا کررہا ہے۔ یہ سب آپ کے علم میں ہونا ضروری ہے۔ جہاں درستگی کی ضورت ہو، فوراً اپنا کردار ادا کریں۔

·        اپنا زیادہ وقت بچوں کے ساتھ گزاریں۔ اس سے نہ صرف آپ کی اپنی تنہائی دور ہوگی بلکہ بچوں کے ساتھ آپ کا اچھا تعلق استوار ہوگا۔

بچوں کی تربیت کا عمل ایک کل وقتی سرگرمی ہے۔ اس میں معمولی سی کوتاہی یاں عدم تسلسل آپ کو مطلوبہ نتائج نہیں دے گا۔

Print Friendly and PDF

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی

Post Add 1

Post Add 2