Header Add

اپنے نفس پر کیسے قابو پائیں؟

Print Friendly and PDF

اپنے نفس پر کیسے قابو پائیں

زندگی کی بڑی فتح اللہ کی خاطر اپنے نفس پر قابو پا لینا ہے- ہم اکثر اپنے نفس کی شرارتوں کو پہچانتے ہیں لیکن اس پر قابو نہیں پا سکتے ، اس کے شر سے خود کو بچا نہیں سکتے ، اُس کے سامنے خود کو کمزور پاتے ہیں ، اس کے خلاف کچھ نہیں کر پاتے ، اور اگر کبھی کبھار اگر کچھ حرکت کر بھی لیتے ہیں تو معمولی سی جدو جہد ہمیں تھکا کر اس کے سامنے ہرا دیتی ہے اور ہم اس کی تابع فرمانی میں لگ جاتے ہیں۔

 اپنے نفس پر قابو پانا، اخلاقیات کے بنیادی ترین اور دین کی اہم ترین تعلیمات میں سے ہے جس پر  ماہرین نفسیات بھی توجہ کرتے ہیں۔ اپنے نفس پر قابو پانے کی ضرورت کی بنیاد یہ ہے کہ نفس کی خواہش ہمیشہ، انسان کی مصلحت اور فائدے کے مطابق نہیں ہوتی۔ خواہش اور مصلحت کے درمیان موافقت کا نہ ہونا باعث بنتا ہے کہ انسان اپنے نفس کو جو خواہشات کا مرکز ہے، اس پر قابو پائے۔

نفس کی خواہشات دو شکلوں میں ظاہر ہوتی ہیں: "رغبت" اور "نفرت"، یعنی نفس بعض اوقات کسی چیز کو پسند کرتا ہے تو اس کی طرف رغبت کرتا ہوا اسے طلب کرتا ہے اور کبھی کسی چیز سے نفرت کرتا ہوا اسے ٹھکرا دیتا ہے۔ نفس کی خواہش کیونکہ ہمیشہ انسان کی مصلحت سے موافق نہیں ہوتی تو کبھی نفس ایسی چیز کو طلب کرتا ہے جو اس کی تباہی اور بربادی کا باعث ہوتی ہے اور کبھی ایسی چیز کو ٹھکرا دیتا ہے جس میں اس کا فائدہ ہوتا ہے۔

نفس پر قابو پانے کے طریقے

علمائے تصوف  کا ایک قول بہت مشہور ہے۔

قلت الکلام، قلت الطعام، قلت الاخلاط، قلت المنام

یعنی کم بولنا، کم کھانا، کم ملنا اورکم سونا۔

تاہم آپ مندرجہ ذیل طریقے استعمال کرکے بھی  اپنے نفس کو قابو کرسکتے ہیں۔

1.   نفس کے خلاف جہاد

نفس کے خلاف جہاد سے مراد  خواھشات کی خلاف ورزی کا نام ہے۔ یعنی لذات و شہوات ، ان لذات و شہوات میں سے کچھ تو حرام ہیں ، جن پر عمل کرنا حلال نہیں ، مثلاً نشہ کرنا ، نماز ترک کرنا ، غیر محرم کی طرف نظر کرنا ، حرام آوازیں سننا جن میں موسیقی گانے اور شرکیہ کلام شامل ہیں۔ کچھ نفسانی خواہشیات جن میں  کھانے پینے کا لالچ وغیرہ ایسی خواہشیات ہیں جن پر عمل کرنے سے گناہ تو نہیں ہوتا لیکن ان کی کثرت انسان کو حرام میں داخل کر دینے کاسبب ہو جاتی ہے ، نماز با جماعت میں تاخیر کرنا، بلا ضرورت اور بلا حجاب غیر محرموں سے بات چیت کرنا ، وغیرہ  بھی ایسی ہی خواہشیات کے زمرے میں آتی ہیں۔ اگر ان سے اجتناب نہ کیا جائے تو انسان نفس کا غلام بن جاتا ہے۔

2.   خواہشیات کی اندحا دھند پیروی نہ کی جائے

ترک نفس یا ترک خواہش بندے کو امیر بنادیتی ہے اور خواہش کی پیروی امیر کو اسیر بنادیتی ہے۔ جس طرح زلیخا نے اپنے نفس کی پیروی کی، امیر تھی لیکن اسیر (قیدی) ہوگئی اور حضرت یوسف علیہ السلام نے خواہش کو ترک کیا اسیر تھے، امیر ہوگئے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو حیوانیت کا نام دیا ہے کیونکہ یہ نفس انسان کو جانوروں والی حیوانیت اور سفاکیت پر ابھارتا ہے۔ یعنی جب نفس حیوانی کا قوت روحانی پر غلبہ ہوجائے تو اس کو نفس امارہ کہتے ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ

وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَویٰ۝ فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ہِیَ الْمَاْویٰ۝

اور جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا، اس کا ٹھکانہ جنت ہے۔

3.  حیاء

حیا، قابو پانے والی ایسی طاقت ہے جو انسان کو توازن اور تعادل پر قائم رکھنے کی توانائی دیتی ہے۔ حیا کے ذریعے برے کام سے دوری اختیار کی جاسکتی ہے اور اچھے کام کو بجالایا جاسکتا ہے۔حیا کرنے والا شخص، نفس کے وسوسوں سے مقابلہ کرسکتا ہے اور جو غلط ہے اسے چھوڑ سکتا ہے اگرچہ اس کی خواہش کے مطابق ہو اور جو اچھا ہے اس پر عمل پیرا ہوسکتا ہے، اگرچہ اس کی خواہش کے خلاف ہے۔ لہذا حیا کرنے والا آدمی اپنے نفس پر قابو پاسکتا ہے۔

4.   نکاح

اسلام دین فطرت ہے اور اس کا سب سے بڑا امتیاز وہ روح اعتدال ہے جو اس کی ہر تعلیم اور ہر حکم میں جلوہ گر نظر آتی ہے۔ انسان میں موجود فطری، خلقی اور جنسی احساسات و جذبات کی تسکین اور تکمیل کے لیے اسلام نے انتہائی مرتب، جامع اور حکیمانہ ازدواجی نظام متعین کیا ہے۔ اسلام نہ تو جنسی لذت کو اصل مقصود حیات قرار دیتا ہے اور نہ اس جذبے کو شر محض قرار دے کر اس کی بیخ کنی چاہتاہے۔ افراط وتفریط کی ان دونوں انتہاؤں سے اسلام کا دامن پاک ہے اور اس کا معتدل نظام ازدواج اس پر شاہد ہے۔ نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے اسلام نے نکاح کا راستہ دکھایا ہے۔ اس لیے اگر آپ جسمانی ومالی ہر دو لحاظ سے حقوق زوجیت کی ادائیگی پر قادر ہیں، بیوی کو مہر اور ضروریاتِ زندگی دے سکتے ہیں اور نکاح نہ کرنے کی صورت میں اسے مبتلائے زنا ہو جانے کا یقین بھی ہے، تو آپ پر نکاح فرض ہے۔ کیوں کہ حدیث مبارکہ میں ہے:

حَدَّثَنَا عَبْدَانُ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَهیمَ عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ بَیْنَا أَنَا أَمْشِي مَعَ عَبْدِ اﷲِ ص فَقَالَ کُنَّا مَعَ النَّبِيِّ فَقَالَ مَنِ اسْتَطَاعَ الْبَائَةَ فَلْیَتَزَوَّجْ فَإِنَّه أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ وَمَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَعَلَیْه بِالصَّوْمِ فَإِنَّه لَه وِجَائٌ۔

’’حضرات عبدان، ابو حمزہ، اعمش، ابراہیم، علقمہ اور حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے روایت ہے کہ ہم نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے تو آپ نے فرمایا: جو عورت کا مہر ادا کرسکتا ہو وہ نکاح کر لے کیونکہ یہ نظر کو جھکاتا ہے اور شرمگاہ کے لیے اچھا ہے اور جو ایسا کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو وہ روزے رکھے کیونکہ یہ شہوت کو گھٹاتا ہے۔‘‘

بخاري، الصحیح، 2: 673، رقم: 1806، دار ابن کثیر الیمامة، بیروت

مسلم، الصحیح، 2: 1019، رقم: 1400، دار احیاء التراث العربي، بیروت

احمد بن حنبل، المسند، 1: 378، رقم: 3592، مؤسسة قرطبة، مصر

ابي داؤد، السنن، 2: 219، رقم: 2046، دارالفکر

ابن ماجه، السنن، 1: 592، رقم: 1845، دار الفکر، بیروت

5.   احکام شریعت کی پابندی

باقاعدگی سے احکام شریعت کی پابندی کریں۔ پنجگانہ نماز ادا کریں، قرآن مجید کی تلاوت کثرت سے کریں۔ اس کے علاوہ ہر وقت اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے حضور علیہ الصلاۃ والسلام پر درود وسلام پڑھیں۔ اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ اچھے کاموں میں مشغول رکھیں۔ کثرت کے ساتھ اپنی نصابی اور غیر نصابی کتب کا مطالعہ کریں۔ جب بھی فارغ ہوں کوئی نہ کوئی کتاب اسلامی، تاریخی یا اپنے سلیبس کی اٹھا کر اس کا مطالعہ کریں۔ جب غلط خیالات آئیں تو فوراً لا حول ولا قوة الا بالله اور أعوذ بالله من الشيطان الرجيم پڑھ کر کسی کام میں مشغول ہو جایا کریں۔

6.   اپنے آپ کومصروف رکھیں

کوئی نہ کوئی گیم کریں، کرکٹ، ہاکی، فٹب ال یا جو اچھی گیم آپ کو پسند ہو۔ جتنا ہو سکے اپنے آپ کو مصروف رکھیں تاکہ آپ کو فارغ رہنے کا وقت ہی نہ ملے۔ کیونکہ انسان کو غلط خیالات اسی وقت آتے ہیں جب وہ فارغ ہوتا ہے، جب انسان کوئی کام نہیں کرتا تو شیطان آ کر ہر قسم کے وسوسے اس کے دل میں ڈالتا ہے، اس کا بہترین حل یہی ہے کہ آپ اپنے آپ کو مصروف رکھیں اور کبھی بھی فارغ نہ بیٹھیں۔

Print Friendly and PDF

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی

Post Add 1

Post Add 2