Header Add

دورانِ تربیت والدین سے ہونی والی غلطیاں

Print Friendly and PDF

 

دورانِ تربیت والدین سے ہونی والی غلطیاں

  • آپ کے بچے کو کسی رشتے دار کے گھر ڈانٹ پڑتی ہے تو آپ کس کو الزام دیں گے، بچے کو یا رشتہ دار کو؟
  • آپ کے بچے کو چوٹ لگ گئی ہے تو آپ کیا کریں گے، فوراً پیار کر کے تسلیاں دینا شروع کردیں گے یا تھوڑا رک کر اسے اپنی غلطی سے سیکھنے کا موقع دیں گے؟
  • اپنے گھر کا ماحول آپ بچوں کے لحاظ سے بنائیں گے یا 'کسی بڑے مقصد' کے مطابق؟
  • آپ اپنے بچوں کی نظروں میں 'بہترین دوست' ہیں یا 'بہترین والدین؟

    بیشتر والدین کا جواب ایسے مسائل اور معاملات میں عموماً بچوں کو تحفظ وخوشی دینے والا اور اپنا تاثر 'خوشگوار' رکھنے والا ہوتا ہے، ہر ماں، باپ کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ بچوں کی 'فوری و عارضی' خوشی اور تسکین کے لیے وہ کچھ کر ڈالیں جو ان کے بس میں ہے، یہاں تک کہ بعض اوقات وہ اس چکر میں اپنے آپ کو ہلکان کر ڈالتے ہیں۔ باپ دن رات پیسہ کماکر سمجھتا ہے کہ وہ بچوں کے لیے ہر خوشی خریدنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے، ماں 'دن بھر' مصروف رہ کر یہ خیال کر رہی ہوتی ہے کہ اس نے 'ماں' ہونے کا حق ادا کر دیا۔

    والدین کا سارا فوکس بچوں کی موجودہ زندگی کے مسائل، آرام اور جسمانی ترقی پر ہوتا ہے، لانگ ٹرم میں 'خوش کر دینے والی پیرنٹنگ' کے مسائل اور ان کے اثرات پر سوچنا نہ ان کی ترجیح ہوتا ہے اور نہ ہی پسند اور بدقسمتی سے ایسے والدین کو اس بات کا بھی احساس نہیں ہوتا کہ آیا وہ اپنے بچوں کے لیے صحیح والدین کا حق ادا کر بھی رہے ہے یا نہیں؟

    ایسے والدین کی غلطیوں کا اندازہ ایک امریکی تحقیق سے بھی لگایا جا سکتا ہے جس کے مطابق دنیا بھر میں ایسے نوجوان افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جو بظاہر ایک خوشحال زندگی گزار رہے ہیں، ان کے دوستوں کا بہترین نیٹ ورک ہے، ان کے والدین بہت زیادہ خیال رکھنے والے ہیں، جن کا کیریئر ٹریک بہت اچھا ہے، ان کی صحت بھی شاندار ہے مگر وہ 'خوش' نہیں یا دوسروں لفظوں میں کہہ لیں کہ زندگی سے مایوس ہیں اور وہ اس کی وجہ بھی نہیں جانتے۔ مذکورہ تحقیق پڑھنے اور ایسے ہی مایوس بچے دیکھنے کے بعد ہر کسی کے ذہن میں ایک ہی سوال ہوتا ہے کہ آخر ایسا کیوں؟

    دنیا کے اس مشکل ترین سوال پر نفسیاتی ماہر پال بوہن کہتے ہیں کہ

    "کافی والدین کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کے بچوں کو معمولی درجے کی تکلیف، پریشانی اور مایوسی کا سامنا بھی نہ کرنا پڑے، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بڑے ہونے پر معمولی، معمولی الجھنیں بھی انہیں یہ یقین دلا دیتی ہیں کہ کہیں کچھ بہت بڑی گڑبڑ ہے۔"

    آئیں دیکھیں کہ والدین  کون سی غلطیاں  کرتے ہیں اور ان کے بچوں پر اس کیا اثرات پڑتے ہیں۔ہم یہ بھی جانے کی کوشش کریں گے کہ ہمارے سماج کے والدین کہاں کیا غلطی کر رہے ہیں اور ممکنہ طور پر ان غلطیوں سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟

    1.   اندھا پیار

    ہماری سوسائٹی آہستہ آہستہ ایک 'بچوں کے گرد گھومنے' والی سوسائٹی بنتی جا رہی ہے، ہمارے گھروں اور اسکولوں میں بچوں کو بے تحاشا آزادی اور سہولیات دستیاب ہیں، والدین کے لیے یہ بات بہت اہم ہوتی ہے کہ ان کی عنایتوں کے بدلے میں بچے ان پر توجہ اور پیار کی بارش سی کر دیں۔ مگر اس دوران بچے کا اسٹیٹس محبت سے بڑھ کر عقیدت میں تبدیل ہوتا چلا جاتا ہے، یہ تبدیلی معصوم ذہنوں کو 'میں، میرا اور مجھے ' کے مائنڈ سیٹ کی طرف لے جاتی ہے۔ اس غلطی سے بچنے کا ممکنہ طریقہ - بچوں کی فرمائشیں مانیں، آزادی دیں، محبت اور نرمی دیں لیکن اس محبت کو اندھے پیار میں تبدیل نہ کریں۔

    2.   میرا بچہ غلطی کر ہی نہیں سکتا

    بچوں اور والدین سے متعلقہ کونسلنگ ماہرین کے مطابق اب والدین اپنے بچوں کے بارے میں کوئی تنقیدی بات سننا پسند نہیں کرتے، کبھی بچے کی کمزوری پر بات کرنا پسند نہیں کرتے پھر چاہے وہ خلوص اور محبت کے جذبے سے ہی کیوں نہ ہو اور اگر ایسی کوئی بات کرنی پڑ جائے تو والدین کا رد عمل بہت شدید ہوتا ہے، یاد رکھیں کہ ایک شرارتی اوربگڑے ہوئے بچے کی کونسلنگ کافی موثر ثابت ہو سکتی ہے بجائے ایک بگڑے ہوئے بالغ فرد کے۔ یاد رکھیں کہ بچوں میں تبدیل ہونے، بہتر ہونے اور اچھی چیزیں جذب کرنے کی فطری استعداد ہوتی ہے، اس لیے بچوں میں کسی بھی بری عادت اور غلط رویے کے رونما ہونے پر اس کی اصلاح کے لیے فوری کوشش کیجیے کہ قبل اس کے کہ بات آپ کے ہاتھوں سے نکل جائے۔

    3.   بچے آپ کے ڈپلیکیٹ نہیں

    والدین بچوں کو اپنا سب سے قابل فخر اثاثہ سمجھتے ہیں، ان کی کامیابی کو اپنی کامیابی اور ان کی خوشی کو اپنی خوشی کا دوسرا رنگ سمجھتے ہیں۔ اگر ایک انسان کامیاب ڈاکٹر ہے تو وہ خواہش کرے گا کہ اس کا بیٹا ڈاکٹر بن کے اس کا اپنا ہسپتال چلائے۔ اگر کوئی کامیاب وکیل بن گیا ہے تو اس کی بھی کوشش ہوگی کہ اس کا بیٹا وکیل بنے تاکہ جو تعلقات اور عزت اس نے کمائی ہے، اس کا اپنا بیٹا اس کو کیش کروالے۔ یہ انتہائی غلط سوچ اورانداز فکر ہے۔

    ڈاکٹر کو ڈاکٹر اس کی اپنی جدوجہد، سوچ، تربیت، ماحول اورفطرت نے بنایا ہے۔ کیا اس کا اس بات پر کنٹرول ہے کہ اپنے بچے کے لئے وہی جدوجہد، سوچ، تربیت، ماحول اورفطرت پیدا کرسکے جو اس کی اپنی ذات کے ساتھ وقت اورحالات نے پیدا کئے۔ بچوں کو اپنا ڈپلیکیٹ بنانے کی کوشش میں ہم بھول جاتے ہیں کہ وہ ہم سے الگ انسان ہیں - والدین دراصل بچوں کی نہیں بلکہ اپنی نامکمل خواہشات کی پیچھے بھاگنے لگ جاتے ہیں، یوں اپنی خوشی کو ہم دراصل ان کی خوشی سمجھ رہے ہوتے ہیں۔

    ہاں ایک ایسا طریقہ ہے کہ والدین اپنے آپ کو اس حد تک آئیڈیل بنائیں کہ ان کے بچے والدین کی خواہش کو پنی 'حقیقی پرسنالٹی' کے طور پر، اپنے رنگ ، انداز اور طریقے سے کریں، نہ کہ وہ آپ کو کاپی کرکے زندگی کو آگے بڑھائیں۔

    4.   بچوں کا بہترین دوست بننے کا جنون

    ہر چیز اعتدال کی متقاضی ہے۔

    ایک دفعہ پیرنٹنگ کے ماہر سے پوچھا گیا کہ والدین پرورش کے دوران سب سے بڑی غلطی کون سی کرتے ہیں تو ان کا کہنا تھا والدین دراصل والدین نہیں رہنا چاہتے اور وہ سخت اقدامات لینے کے بجائے بہترین دوست بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ہر والد یا والدہ کی خواہش ہوتی ہے کہ بچے ان سے محبت کریں، وہ چاہتے ہیں کہ بچے ان کے گن گاتے جائیں مگر ایک چیز جو والدین نظر انداز کرتے ہیں وہ یہ کہ 'صحیح تربیتی قدم' عموماً وہی ہوتا ہے جو بچوں کو پسند نہیں آتا۔

    یاد رکھیں کہ بہترین دوست بننے کا شوق، والدین کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرتا ہے اور وہ ایسے تمام کاموں کو چھوڑنے پر مجبور ہوجاتے ہیں جو انہیں بچوں کی نظر میں ظالم بنا دیں، یہ بچوں سے محبت نہیں بلکہ آپ کی ضرورت ہے اور اسے سمجھنےکی کوشش کریں۔

    اس قسم کی غلطی سے بچنے کا  ایک ممکنہ طریقہ ہے کہ 'معتدل حکمت عملی' اپنائیں یعنی جہاں ضرورت ہو پابندی لگائیں، سزا دیں اور زندگی کے حقائق پر بات کریں۔ جہاں بچے کو کوئی بڑا نقصان نہ ہو رہا ہو، وہاں بچوں کو با اختیار اور فیصلہ ساز بنائیں۔

    5.   مقابلے باز پرورش

    سب ہی والدین کے اندر دوسروں کے بچے دیکھ کر مقابلے بازی کی سوچ پیدا ہو جاتی ہے، کوئی بھی جاننے والا فرد اپنے بچے کے کسی اچھے پہلو کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے اور ہم اس کا مقابلہ اپنے بچے سے شروع کر دیتے ہیں۔ دراصل ہمیں اپنے بچے پر اعتماد نہیں ہوتا بلکہ خوف ہوتا ہے کہ 'ہمارا بچہ پیچھے رہ جائے گا'ہمارا ذہن ہمیں 'ٹریپ' کرتا ہے کہ اگر ہم نے بچے کے ساتھ زبردستی نہ کی تو ہمارا بچہ ایک 'گزارے لائق فرد' بن کر رہ جائےگا، اس لیے ایسے میں دراصل ہماری سوچ یہ ہوتی ہے کہ ہم ہر قیمت پر جیتنے کا مائنڈ سیٹ چاہتے ہیں۔

    اس کا ایک  ممکنہ طریقہ موجود ہے۔

    یاد رکھیں کہ  ہر بچے کے اندر 'کچھ خاص' صلاحیتیں، عادات اور خصوصیات ہوتی ہیں، انہیں پہچاننے کی کوشش کریں اور انہیں ڈیولپ کریں، دوسروں کے بچے کے ساتھ مقابلہ بازی کی عادت آہستہ آہستہ ختم کریں۔

    6.   بچپن کا سنہرا پن بھول جانا

     بچپن کے سنہرے دور کو 'والدین' کے بجائے ایک بچہ بن کر سوچیں، یہ درست ہے کہ چھوٹے بچوں کو سنبھالنا اور بڑا کرنا بہت مشکل اور بیزار کن ہو سکتا ہے، کیوں کہ یہ کام جسمانی او ر جذباتی طور پر اتنا تھکا دینے والا ہوتا ہے کہ ہم سوچتے ہیں کہ کاش یہ جلدی بڑے ہو جائیں تاکہ ہماری زندگی بھی کچھ آسان ہو جائے۔ اسی دوران ہی مستقبل کی کامیابی کا دباؤ ہمارے دماغ پر اتنا ہوتا ہے کہ انہیں معصوم سی چھوٹی چھوٹی حرکتیں کرتے دیکھ کر بھی ہمارا ذہن خدشات کا شکار رہتا ہے اور اس دوران میں ہم 'زندگی جینا' چھوڑ دیتے ہیں۔

    بچوں کا شرارتی انداز میں کپڑے پہننا، ملکوتی مسکرانا، پھلجڑیوں سا کھلکھلانا، پر جوش ننھے قدم اٹھا کر ادھر سے ادھر بھاگ کر ٹانگوں سے لپٹ جانا اور انوکھی بولیوں کے ذریعے کہانی سنتے حیرت ظاہر کرنے جیسے عوامل ہمارے لیے غیر اہم ہوجاتے ہیں اور ہم اپنےساتھ ان کے بچپن کا 'سنہرا پن' بھی ختم کر دیتے ہیں اور یوں زندگی کا دباؤ ان کے بچپن کی تازگی، حقیقی مسرت اور سکون ختم کرتا چلا جاتا ہے۔ یاد رکھیں کہ بچپن نام ہی کھیل اور کھوج و تجسس کا ہے جب ہم زندگی کا دباؤ ان پر ڈالتے ہیں تو دراصل ہم ان کی معصومیت، بے ساختگی اور خوشی کو ختم کرنے کا سبب بن رہے ہوتے ہیں۔

    آپ روز بچوں کے کم از کم 10 چھوٹے چھوٹے لمحات جینا سیکھیں، مستقبل کا دباؤ ان پر منتقل کرنے کے بجائے ان کے ساتھ بچہ بن کر سوچیں اور کھیلیں۔

    7.   اپنی پسند کا بچہ بنانے کی کوشش

    والدین کی حیثیت سے ہم اپنے بچوں کے حوالے سے بہت سے خواب آنکھوں میں بُن لیتے ہیں بلکہ پیدائش سے پہلے ہی ہم بچوں کے مستقبل کا سوچ لیتے ہیں، ہماری پوشیدہ خواہش یہی ہوتی ہے کہ وہ ہماری طرح بن جائیں اور چاہتے ہیں کہ وہ تھوڑا اور اسمارٹ اور تھوڑا اور باصلاحیت ہو جائیں مگر یاد رکھیں بچوں کے اپنے خواب کچھ اور ہو سکتے ہیں اور ان کا زندگیوں کا رنگ ڈھنگ اور اٹھان ہماری سوچ سے بالکل متضاد ہو سکتی ہے، اس لیے اپنے خواب ان پر مسلط کر دینا زیادہ تر نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔

    قدرت کی طرف سے دی گئی شخصیت کی نشاندہی کریں، اس سے میل کھاتی، منزل کی سمت جانے کی ٹریننگ فراہم کریں، بچے کی اصل شخصیت کو پہچان کر ہی آپ اس کی زندگی پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔

    8.   دوغلا پن

    بیشتر والدین کا گفتار ان کے کردار سے متضاد ہوتا ہے اور اس دہرے پن کو مستقل طور پر رکھنے سے ہم بچوں کو دہری شخصیات میں ڈھال رہے ہوتے ہیں، والدین کیسے مشکل حالات کا سامنا کرتے ہیں، کیسے مسترد کیے جانے، ناکام ہوجانے پر رد عمل دیتے ہیں، کیسے دوستوں اور اجنبیوں سے معاملات رکھتے ہیں اور کیسے والدین ایک دوسرے سے تعلق کو لے کرچلتے ہیں، بچے ان سب چیزوں کو نوٹ کرتے ہیں اور والدین کے اسی عمل سے سیکھتے ہیں۔

    بچوں کو غیر معمولی شخصیت بنانے کا ایک کھلا راز یہ ہے کہ ہم 'غیر معمولی شخصیت' بننے کی کوشش کرتے رہیں۔

    9.   غیر دانشمندانہ مشورہ

    والدین کو چاہئے کہ اپنے مسائل کی خود ہی نشاندہی کریں اور خود ہی ان کا حل تلاش کریں۔ اگر معاملہ بچے کی تربیت سے متعلقہ ہو توں ناں تو اپنے کسی دوست میں افلاطون تلاش کریں اور نہ ہی خود ارسطو بننے کی کوشش کریں۔  دوسرے والدین کے اندرونی حالات سے مکمل واقفیت ہونے تک ہم ان کی پیرنٹنگ پر بات نہیں کر سکتے، ہر گھر کے حالات، مشکلات اور مسائل الگ ہو سکتے ہیں، اس لیے دیگر والدین اور ان کے بچوں پر اعتراض یا تنقید کرنا ان کے لیے تباہ کن بھی ہو سکتا ہے۔ یہ ہمارا اختیار نہیں کہ ہم  کسی پر  فیصلے صادر کریں، کوئی بھی اس دنیا میں مکمل درست یا مکمل غلط نہیں ہوتا، ہم سب اچھائی اور برائی کا امتزاج ہو سکتے ہیں۔

    10.         کردار اور اسے نکھارنے کو نظر انداز کرنا

    اگر والدین کو بچوں میں صرف اور صرف ایک چیز ڈیولپ کرنے کی اجازت ہو تو بلاشبہ یہ واحد چیز کردار ہونی چاہیے، کرداریعنی ہمارے اندر کی بنیادی وصف، راہ دکھانے والا ہمارا 'اندر کا چراغ، یاد رکھیں کہ کردار کی بہتری امتحانات میں اچھی رپورٹ کارڈ، ٹرافی سے کہیں زیادہ اہم ہے۔

    ہم اپنے بچوں میں کردار نکھارنے کو ایک اضافی کام سمجھتے ہیں، والدین سوچتے ہیں کہ بڑے ہو کر ان کا کردار خودبخود ٹھیک ہو جائے گا مگر یہ صرف والدین کی غلط فہمی ہوتی ہے، عام طور پر 10 سے 15 سال کی عمر میں بچوں کے نزدیک بھی کردار کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی مگر یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ بچوں کو عارضی فوائد سے بچاتے ہوئے انہیں مستقبل میں لوگوں سے اچھا معاملے کرنے والا اور اپنے بارے میں مثبت سوچنے والا بنانے کی فکر کریں۔

    یاد رکھیں کہ کردار، اعتماد، مضبوطی اور گر کر دوبارہ اٹھنے کی قوت، بچوں میں صرف مشکلات کا سامنا کرنے سے آسکتی ہیں۔ بچوں کی زندگی کے کاموں اور ایشوز کو 3 اقسام میں تقسیم کر کے ان کی فہرستیں بنائیں اور فہرست شارٹ ٹرم ، مڈ ٹرم اور لانگ ٹرم منصوبوں پر ہونی چاہیے۔ اب ہر کام کو اس کےممکنہ اثرات سے ترجیح دیں، شارٹ ٹرم کاموں پر کم، اور لانگ ٹرم کاموں، ایشوز اور مسائل پر زیادہ فوکس کرتے ہوئے کام کی کوشش کریں۔

    یہ درست ہے کہ اپنے بچوں کو عارضی طور پر بھی ناکام دیکھنا مشکل ہوتا ہے مگر کبھی کبھار والدین کے لیے یہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے، بچوں سے محبت کے لاکھوں طریقے ہو سکتے ہیں اور یہ بھی والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کو شارٹ ٹرم مشکلات سے گزرنے دیں تاکہ وہ لانگ ٹرم ثمرات حاصل کر سکیں۔

    Print Friendly and PDF

    Post a Comment

    أحدث أقدم

    Post Add 1

    Post Add 2