Header Add

سیرت النبی ﷺ کی روشنی میں بچوں کی نفسیات کا تحقیقی جائزہ

Print Friendly and PDF

 سیرت النبی ﷺ کی روشنی میں بچوں کی نفسیات کا تحقیقی جائزہ

نفسیات ایک دلچسپ موضوع ہے جو انسان  کے بنیادی رویے کے بارے میں جاننے میں معاونت کرتا ہے۔ نفسیات کے میدان میں انسانی نفسیات کے پوشیدہ راز جاننے کی کوشش ہر وقت ہوتی رہتی ہے۔ نت نئے اندازکواختیار کیا جاتا ہے اور انسانی عقل وفطرت اور رویوں پرتحقیق کرنے کے لئے ماہرین شبانہ روز مصروف رہتے ہیں۔

نفسیات کی لغوی تعریف

نفسیات نفسیۃ کی جمع ہے جسکا معنیٰ ہے ذہنیت ، نفسیۃ نفس کی مؤنث ہے تلفظ کے اعتبار سے اسے دو طرح سے پڑھ سکتے ہیں۔

·        الف۔ نَفس ف کے سکون کے ساتھ جسکا معنیٰ ہے روح، جان ، شخصیت

·        ب۔ نَفَس ف کے فتحہ کے ساتھ، جس کامعنیٰ ہے سانس، خوشگوار ہوا۔

نفسیات کے لئے انگریزی زبان میں سائیکالوجی(Psychology) کا لفظ استعمال ہوتاہے درحقیقت یہ لفظ دو یونانی لفظوں"Psyche" اور"Logos"سے مل کر بنا ہے۔یونانی زبان میں"Psycho" کا لفظ نفس، روح اور ذہن وغیرہ مختلف معانی کےلئےاستعمال ہوتاہے اور"logy" کا لفظ علم، وضاحت اور تشریح کےلئے استعمال ہوتا ہےیوں یونانی زبان میں "Psychology" کا مطلب یہ نکلتاہے کہ"روح کا علم"یعنی وہ علم جس میں روح کےمباحث کوبیان کیاجاتاہے۔

نفسیات کی اصطلاحی تعریف

The scientific study of the behavior of individuals and their mental processes is called psychology

ترجمہ : اس تعریف کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کے کردار اور اس کے ذہنی عمل کے سائنسی مطالعہ کو نفسیات کہاجاتاہے۔

بچپن کی تربیت کی اہمیت:انسان اپنی زندگی میں کئی مراحل سے گذرتاہے انسان کا پہلا دور بچپن کا ہوتاہے ماہرین نفسیات کے نزدیک یہ دور بہت اہمیت کا حامل ہوتاہے اور یہ ماہرین زیادہ تر بچپن کے معاشریت کے عامل پر بحث و تحقیق کرتے ہیں، کیونکہ بچپن ہی سےانسانی طرزِزندگی کی بنیاد پڑتی ہے چنانچہ اگر ہم غور سے بچوں کا مطالعہ کریں تو یہ بات صاف طور پر واضح ہوجاتی ہےکہ بچے بچپن ہی سے زندگی کا معنیٰ اور س کا مقصد جاننے کی کچھ نہ کچھ کوشش کرتے ہیں بچے ماحول اور معاشرے میں اپنی قابلیتیں، قوتیں اور صلاحیتوں کوجاننےکی کوشش کرتے ہیں اور پانچ سال کی عمر میں ایک خاص طرزِ زندگی اپنانے لگتے ہیں اور ایک مخصوص طریقے سے اپنے مسائل حل کرنے لگتے ہیں عموماََ اس عمر میں پہنچ کربچے یہ بات سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ دوسرے لوگ ان سے کیاتوقعات رکھتے ہیں؟ نیز انہیں دوسروں سے کیا توقعات ہیں؟ خلاصہ یہ کہ عموماََ اس عمر میں بچے دنیا کو ایک پائیدار ادراکی نظام کے تحت دیکھتے ہیں [5]چنانچہ انسانی فطرت کی رو سے بچپن کا زمانہ ہی آئندہ کی پوری زندگی کے لئے بنیاد رکھنے کاوقت ہے ، یہی دور بچے کےذہن سازی کا ہوتاہے اس وقت جیسا ذہن بنے گا زندگی کے بقیہ مراحل جوانی اور بڑھاپے تک اس کے اثرات باقی رہیں گےاگر بچے کے کردار وخلاق کو اچھی تربیت کے سانچے میں ڈھالا جائےگا تو یہ آئندہ زندگی میں اس کے لئے ایک مفید سرمایہ ہوگااور اگر شروع ہی میں بری خصلتیں جڑ پکڑ گئیں توآگے چل کر اصلاح کا عمل ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوجائے گا[6]چونکہ بچہ دودھ پینے کے زمانے ہی سے والدین کے تعلقات ، ان کے رویے اور تربیت کے طریقوں سے متاثر ہوتاہے اسی طرح بچپن میں بچے کی شخصیت پر خاندانی رویوں ، رجحانات اور اقدار کابھی اثر ہوتاہے نیز نفسیاتی اعتبار سے اس زمانہ کے دیگر تجربات بھی بہت اہم ہوتے ہیں اس وجہ سے ماہرین اسے زیادہ اہمیت دیتے ہیں [7]اس حوالے سے سیرت نبویﷺ کی تعلیمات سے ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آپﷺنے اس حقیقت کو یوں بیان کیاہے ۔

كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهِ كَمَثَلِ البَهِيمَةِ تُنْتَجُ البَهِيمَةَ هَلْ تَرَى فِيهَا جَدْعَاءَ۔

مام بخاری، ابو عبداللہ محمد بن اسماعيل(ف256ھ)، الجامع الصحیح ، ج2، ص100، دار طوق النجاةبیروت، 2001ء۔

ترجمہ:ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے والدین اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں جس طرح کہ جانور صحیح سالم بچہ جنتا ہے ۔ کیا تم نے کوئی کان کٹا ہوا بچہ بھی دیکھا ہے ؟۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہر انسان کی پیدائش فطرت پر ہوتی ہے پھر معاشرتی عوامل میں سے ایک عامل اس کی نفسیات پر اثر اندازہوکراس کےطرز زندگی کو بدل کر رکھ دیتاہے۔

بچوں کی تربیت کے نفسیاتی اصول

شفقت

شفقت اور محبت  کسی بھی انسان کے دل جیتنے کا آسان طریقہ ہے، اور بچے اس انسان سےزیادہ جلدی مانوس اورخوش ہوتے ہیں جو، ان سے پیار کرے اس وجہ سے آپﷺ بچوں کی آمد پر خوشی کااظہارکیاکرتےتھےچنانچہ حضرت ابوہریرہ ؓفرماتے ہیں کہ میں مدینہ کے بازاروں میں سے ایک بازار میں آپﷺ کے ساتھ تھا، آپﷺ واپس ہوئے تو میں بھی آپ ﷺکے ساتھ واپس ہوا، آپ ﷺنے تین مرتبہ فرمایا بچہ کہاں ہے؟حسن بن علی کو بلاؤ، وہ آ رہے تھےاور ان کی گردن میں ہار پڑا تھانبی کریم ﷺنے اپنا ہاتھ پھیلایا اور حسن ؓنے بھی اپنا ہاتھ پھیلایااور وہ نبی کریم ﷺسے لپٹ گئے۔ پھر آپ ﷺنے فرمایا، اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر اور ان سے بھی محبت کر جو اس سے محبت رکھیں۔ ابوہریرہ ؓنے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺکے اس ارشاد کے بعد کوئی بھی شخص مجھے حسن بن علی ؓ سے زیادہ پیارا نہیں تھا۔

بخاری، الجامع الصحیح ، ج7، ص159

صحبت

اولادکی تربیت میں صحبت ایک بہت بڑاعنصرہےکیونکہ ایک دوست دوسرےدوست کاآئینہ دارہوتاہےاوروہ ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھتے ہیں لہٰذا جب بچے اپنے ہم عمر ساتھیوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے لگے تو والدین کی ذمہ داری بنتی ہےکہ وہ اپنے بچوں کو نیک بچوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کی تاکید کریں اور ان کی اخلاق و عادات کی نگرانی کریں اور یہ بھی کوشش کریں کہ مختلف مواقع پر بچے کو اپنے ساتھ رکھیں کیونکہ یہ بھی بچوں کا ایک حق ہے کہ وہ بڑوں کے ساتھ اٹھ بیٹھ کر تہذیب سیکھ کر اپنی عادات سنوارے۔

آپﷺکاطرزِ عمل یہ تھاکہ آپﷺزندگی کے مختلف مراحل میں بچوں کواپنے ساتھ رکھتےتھے۔اس معاملےمیں آپﷺکوادنیٰ تامل بھی نہ تھااور نہ ہی کوئی تکلف تھا، نہ کبھی کسی قسم کی ناگواری کا اظہار کیا۔ بخاری کی روایت ہے،

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي وَهُوَ حَامِلٌ أُمَامَةَ بِنْتَ زَيْنَبَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلِأَبِي العَاصِ بْنِ رَبِيعَةَ بْنِ عَبْدِ شَمْسٍ فَإِذَا سَجَدَ وَضَعَهَا، وَإِذَا قَامَ حَمَلَهَا

بخاری، الجامع الصحیح ، ج1، ص109

ترجمہ:آپﷺامامہ بنتِ زینبؓ کو اٹھائے ہوئے نماز پڑھتےتھے اور سجدے میں جاتے وقت اسے رکھ دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو پھراٹھالیتے۔

بڑوں کوچاہیئے کہ وہ مختلف مواقع پرچھوٹے بچوں کو اپنے ساتھ رکھے تا کہ بچپن ہی سے وہ آداب ِمجلس سیکھ لیں۔ بلکہ احادیث میں تو یہاں تک تذکرہ آیا ہے کہ صحابہ کرام ؓاپنے دودھ پیتے بچے آپﷺ کی خدمت میں لے کر آتے اور بسا اوقات وہ آپﷺ کے کپڑوں پر پیشاب کرلیتے۔لیکن آپﷺ نے کبھی بھی ناگواری کااظہار نہیں کیا ۔چنانچہ حضرت عائشہؓ سے مروی ہے۔

أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِصَبِيٍّ، فَبَالَ عَلَى ثَوْبِهِ، فَدَعَا بِمَاءٍ فَأَتْبَعَهُ إِيَّاهُ

بخاری، الجامع الصحیح ، ج1، ص54

ترجمہ :ایک بچہ آپﷺکی خدمت میں لایا گیا تو اس نے آپﷺ کےکپڑوں پرپیشاب کیا ۔آپﷺ نے پانی منگواکر اس پر بہایا۔

بچوں کا دل خوش کرنا

بچوں کے معصوم ذہنوں پرخوشی اور مسکراہٹ بہت گہرااثرڈالتی ہے۔ بچے فطری طورپر خوش دلی اور انبساط کوبہت چاہتےہیں۔  بچےجب اپنےوالدین اوردیگرقریبی رشتہ داروں کے چہروں پرخوشی کے آثاردیکھتے ہیں تواس سے ان کی طبیعیتوں میں بھی چستی اور تازگی پیداہوتی ہے۔ جس کی بناء پر ان میں سیکھنے کا عمل تیزہوتاہے۔ آپﷺ بچوں کے دل خوش کرنے کے لئےمختلف اندازاختیاررفرماتےتھے۔

بچوں کو اہمیت دینا

بچوں کے ساتھ میل جول رکھناانتہائی اہمیت کاحامل ہے۔جب ان کے ساتھ خوشگوارانداز میں میل جول رکھاجائےاور انہیں اہمیت دی جائےتو بچے پراس کے عمدہ اثرات پڑتے ہیں۔  اس کا ایک نفسیاتی فائدہ تو یہ ہوتاہے کہ بچہ آپ کوتوجہ دے گا،  آپ کی بات غور سے سنےگااور دوسرانفسیاتی فائدہ یہ ہوتاہےکہ ایسے بچے آگےچل کر مستقبل میں خود بھی کشادہ دل واقع ہوتےہیں اورپھر وہ دوسروں کو بھی اہمیت دیتے ہیں۔

 صرف اپنی ذات تک محدود نہیں رہتےہیں چنانچہ حضرت عبداللہ بن جعفرؓسےمروی ہے کہ جب آپﷺسفرسےواپس آتے تواپنےگھر کےبچوں سےملتے۔

قرطبی، الاستیعاب، ج3، ص880

ایک مرتبہ جب آپﷺسفر سے واپس تشریف لے آئےتو مجھے آپﷺ کی خدمت میں حاضرکیا گیاتو آپﷺنےمجھےاپنی سواری پراپنےآگےبٹھالیا۔پھرآپﷺ کےنواسوں میں سے کسی ایک کو لایاگیا تو آپﷺ نےاسے اپنے پیچھے سوار کرلیا ۔

 ۔مسلم، الجامع الصحیح ج4، ص1885، دار احياء التراث العربي – بيروت،1954ء

دیکھئے اس موقع پر آپﷺ نے حضرت عبداللہ بن جعفرؓکو وہی اہمیت دی جو اپنے نواسوں کودیاکرتےتھےجس کااثر یہ ہوا کہ وہ زندگی بھر اس واقعہ کو نہ بھولے اور اسےبہت خوشی خوشی بیان کرتے تھے۔

بچے کےسرپر دستِ شفقت پھیرنا

بچوں کی فطرت ہے کہ جب ان سے پیارکیاجائے  تو وہ بہت زیادہ خوشی اوراپنائیت محسوس کرتے ہیں ۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ جب آپﷺ انصاریوں کےہاں آتے تو بچوں کو بھی سلام کرتے اور ان کے سر پر دستِ شفقت رکھتے۔

ابن ماجہ، ابو عبدالله محمدبن يزيد ، (ف273ھ)، السنن، ج2،ص1220، داراحياءالكتب العربیۃ بیروت، 2009ء

اسی طرح آپﷺ سر پر ہاتھ پھیرنے کے ساتھ ساتھ کبھی کبھاربچے کے رخساروں پر دستِ مبارک پھیرتے اس سے بچوں کواور بھی زیادہ دلی محبت کااحساس ہوتا ۔ حضرت جابر بن سمرۃؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ میں نے آپﷺ کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھی۔  جب آپ مسجد سے باہر نکلنے لگےتو میں بھی آپﷺ کے ساتھ نکلا ۔ باہر آکر بچے آپﷺ سے ملنے لگے ۔ آپ ﷺتمام بچوں سے ملے اور ن کے چہروں پر ہاتھ پھیرا۔ میرے  چہرے پر بھی آپﷺنے ہاتھ پھیرا تو مجھے آپﷺ کےہاتھوں میں ایسی خوشبو اور ٹھنڈک محسوس ہوئی گویا کہ عطار کاعطر دان ہو۔

مسلم ،الجامع الصحیح،ج4 ،ص1814

بچوں کوچومنا

بچوں کی محبت اور اپنائیت حاصل کرنے میں بچے کا بوسہ لینا ایک اہم عنصر ہے۔  اس سے بڑے اور چھوٹے کےدرمیان محبت پیداہوجاتی ہے۔ بچہ یہ سمجھتاہے کہ بڑا اسے چاہتاہے۔  جس سے بچے کے دل ودماغ پراچھے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں اور محبت ملنے کی وجہ سے وہ دوسروں کے ساتھ بھی محبت سے پیش آنے لگتاہے۔

چنانچہ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ کی خدمت میں کچھ دیہاتی حاضر ہوئے اور آپﷺ سے دریافت کیا کہ کیا آپﷺ اپنے بچوں کو بوسہ دیتے ہیں؟تو آپﷺ نے جوابا ارشاد فرمایا ! ہاں اس پر انہوں نے کہا کہ ہم تو ایسا نہیں کرتے تو آپﷺ نے فرمایا اس میں میرا کوئی ختیار نہیں کہ اللہ تعالٰی نے تم لوگوں کے دل سے رحم نکال دیاہے۔

ابن عبدالبر، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ج4،ص108

اسی طرح ایک موقع پر آپﷺنے حضرت حسن کو چوما تو اقرع بن حابسؓ نے کہا کہ میرے تو دس بچے ہیں میں نے تو انہیں کبھی نہیں چوما اس پر آپﷺنے فرمایا کہ جورحم نہیں کرتا اس پررحم نہیں کیا جاتا۔

بخاری، الجامع الصحیح ، ج8، ص7

بچوں کے ساتھ ہنسی مذاق کرنا

بچے خود ہنس مکھ ہوتے ہیں اور معصوم حرکتیں کرکے بڑوں کی ہنسی اور خوشی کاذریعہ بنتے ہیں۔  بچے جس معصومانہ انداز میں بڑوں کے ساتھ ہنسی مذاق اور دل لگی کرتے ہیں ، ٹھیک اسی طرح وہ بڑوں سے بھی اس امر کی امید رکھتے ہیں کہ بڑے بھی ان کی نفسیات کا خیال رکھے ۔

 ایک روز جب آپﷺ تشریف لائے تو ابو عمیر کو غمگین دیکھا ۔ آپﷺ نے ان سے پوچھا ابوعمیر!تم غمگین نظر آرہےہو، کیا ہواہے؟

 گھر والوں نے بتایا کہ اس کا ایک بلبل تھا جس کے ساتھ یہ کھیلتاتھا وہ مرگیاہے۔

 یہ سن کر آپﷺ فرمانے لگے ۔ اے ابوعمیر بلبل کاکیا بنا؟

امام حنبل، مسنداحمد (ف، 241ھـ)، ج19،ص185۔ مؤسسۃ الرسالۃ ، 1421ھ/2001ء

حضرت جابرؓ سے مروی ہے کہ ہم آپﷺ کے ساتھ موجودتھے کہ ہمیں کھانے کے لئے بلایاگیا۔  رستے میں آپﷺ  کے نواسے حضرت حسین ؓ دیگر بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے ۔ آپﷺ دیگر لوگوں سے آگے بڑھےاور امام حسین کوپکڑنے کےلئے اپنے ہاتھ پھیلالئے،  تو وہ اِدھر اُدھر بھاگنے لگے۔ آپﷺ انہیں ہنساتے رہے۔ یہاں تک کہ انہیں پکڑلیا اور گلے سے لگاکر بولے ۔

حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔  جو بھی اس سے محبت رکھے ، اللہ اس سےمحبت رکھے۔

ابن اثیر،اسد الغابہ،ج2، ص24

بچوں کو کچھ نہ کچھ تحفہ دینا

آپﷺ کا فرمان ہے۔

تَهَادُوا تَحَابُّوا۔

  بخاری ، ج1، ص208،دار البشائر الاسلاميۃ بيروت،1989ء۔

آپس میں ایک دوسرے کو ہدیے دیاکرو۔

حضرت ابوھریرہؓ فرماتے ہیں کہ جب آپﷺ کی خدمت میں موسم کا پہلا پھل لایاجاتھاتو اولاََ آپﷺ برکت کی دعا فرماتےتھے اور پھر وہ پھل اس مجلس میں موجود سب سے کم عمر بچے کو بطورِہدیہ کے دیتےتھے۔

مسلم،الجامع الصحیح،ج2، ص1000

بچوں کے ساتھ کھیل کود

بچوں کی شخصیت نکھارنے اور ان مناسب تربیت کے لئے ان کے ساتھ کھیل کود ایک بنیادی امر ہے۔ اپنی اولاد کے ساتھ کھیلنے سے اولاد کو خوشی اور فرحت حاصل ہوتی ہے اور والدین سے تعلق مزید مضبوط بن جاتاہے ۔

آنحضرتﷺ عبداللہ بن عباسؓ اور عبیداللہ بن عباسؓ کو ایک قطار میں کھڑا کرتےاور ان سے فرماتے تھے۔

"جو پہلےمجھ تک پہنچے گا اسے یہ یہ انعام ملے گا"

و وہ دونوں دوڑ پڑتےاور آپﷺ کے سینہ مبارک اور پیٹھ پر چڑھتے۔ آپ ُﷺ انہیں بوسہ دیتے اور اپنے ساتھ چمٹالیتے۔

ابن الاثیر ، اسد الغابۃ ج3،ص291

آپﷺ اپنے دونوں نواسوں کو اپنی پیٹھ پرسوارکرلیتے تھے ۔ چنانچہ حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ میں آپﷺکی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپﷺ کےدونوں نواسے آپﷺ کی پیٹھ پر سوار ہیں اور آپﷺ چار پاؤں پر چل رہے ہیں اورآپﷺ دونوں سے فرمارہے تھے کہ تمہاری سواری بہت اچھی سواری ہے اور تم دونوں بہت اچھے سوار ہوں۔

تربیتِ اولاد کانبوی اندازاور اس کے زریں اصول، ص، 210

لڑکیوںاورلڑکوں میں مساوات

جاہلیت کے زمانے میں عرب کے کئی قبائل میں لڑکیوں کو زندہ درگورکرنا عام تھا۔  لڑکیوں کی پیدائش پرغمگین ہونا  آج بھی ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ قرآن کریم  میں ارشاد ہے۔

وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثَى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ ۔ يَتَوَارَى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ أَيُمْسِكُهُ عَلَى هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ أَلَا سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ

القرآن الکریم،النحل:58/59

جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی خوشخبری دی جاتی ہے تو سارا دن اس کا چہرہ بےرونق رہتا ہے اور وہ دل ہی دل میں گھٹتا رہتاہےاور جس چیز کی اس کو خبر دی گئی ہوتی ہے اس کی عار سے لوگوں سے لوگوں سے چھپتا پھرتاہے آیا اسے ذلت کی حالت میں لیے پھرتا رہے یا مٹی میں گاڑ دے ۔ خبردار ان کی تجویز کیسی بری ہے۔

آپﷺنے اس مشرکانہ طرزِعمل کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے بچیوں کی پرورش کی حوصلہ افزائی کی ہے۔  آپﷺ کافرمان ہے ۔

مَنْ عَالَ جَارِيَتَيْنِ حَتَّى تَبْلُغَا،جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَنَا وَهُوَ وَضَمَّ أَصَابِعَهُ

مسلم،الجامع الصحیح،ج4، ص2027

جس کسی نے دو لڑکیوں کی  پرورش کی تو وہ اور میں روزِقیامت ان دو انگلیوں کی طرح اکھٹے ہونگے۔ یہ فرماکر آپﷺ نےاپنی انگلیوں کو باہم ملادیا۔

آپﷺ کا ارشاد ہے۔

جس کسی کو لڑکیوں کے ذریعے آزمایاجائے اور پھروہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو یہ عمل اس کے لئے جہنم سے بچاؤ کاذریعہ ہوگا۔

بخاری، الجامع الصحیح ، ج2، ص110

ایک دوسری جگہ  آپﷺ نے فرمایا:

مَنْ كَانَتْ لَهُ أُنْثَى فَلَمْ يَئِدْهَا،وَلَمْ يُهِنْهَا،وَلَمْ يُؤْثِرْ وَلَدَهُ عَلَيْهَا، قَالَ: يَعْنِي الذُّكُورَ أَدْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ

امام ابوداود،ابوداودسليمان بن الاشعث(ف 275ھ)، السنن، ج4، ص337، میرمحمدکتب خانہ کراچی،1949ء

جس کسی کی لڑکی ہو اور وہ اسے زندہ درگور نہ کرے اور نہ ہی لڑکے کو اس پرترجیح دے تو ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ جنت میں داخل کرینگے۔

تمام اولاد میں برابری سے کام لینا

:آپﷺنےاولادکےمعاملےمیں برابری نہ کرنےکوظلم قراردیاہے۔ روایت ہےکہ ایک صحابیؓ کی بیوی نےاپنےشوہرسےکہا، اپناغلام میرےبیٹےکودےدیں اوررسولاللہﷺکواس بات پرمیرےلیےگواہ بنا دیں۔  بشیرؓ رسول اللہﷺکےپاس آئےاورعرض کیا کہ میری بیوی نےمجھ سےمطالبہ کیاہےکہ میں اس کےبیٹےکوغلام ہبہ کردوں اوراس پرآپﷺکوگواہ بنالوں۔

آپﷺنےفرمایاکہ کیااس کےاوربھی بھائی ہیں؟

توانہوں نےکہا، ہاں، توآپﷺنےان سےپوچھاکیاتم نےسب کوایساہی غلام دیاہےجیسااسےدیاہے؟ا

نہوں نےکہا نہیں۔

 توآپﷺنےفرمایایہ تودرست نہیں اورمیں توصرف حق بات ہی کی گواہی دےسکتاہوں ۔

ابوداود، السنن ، ج3، ص293

تمام اولاد میں برابری کرناان کی تربیت کےحوالےسےایک اہم بنیادی چیزہے۔ اولاد میں سے کسی کو نوازنا اور کسی کو بالکل محروم کرنا یا کم دیناجائزنہیں۔  اگر اولاد میں برابری سے کام نہ لیاجائےتواس ک سے مندرج ذیل  خرابیاں جنم لیں گی۔

1۔ اولاد میں باہمی دشمنی پیداہوگی۔

2۔ نوازنےجانے والے میں تکبر اور احساسِ برتری پیداہوگا۔

3۔ محروم ہونے والےمیں احساسِ کمتری پیداہوگا۔

4۔ محروم ہونےوالے میں والدین سےبغض پیداہوگا۔

Print Friendly and PDF

Post a Comment

أحدث أقدم

Post Add 1

Post Add 2