Header Add

اہلِ علم سے استفادہ کرنا

Print Friendly and PDF

 


اہلِ علم سے استفادہ کرنا

ذاتی مطالعہ اور غور و فکر سے اگرکوئی مسئلہ یا عبارت حل نہ ہو سکے تو با صلاحیت اساتذہ اور دوسرے علماء کرام سے پوچھ لینا چاہئے ۔اس سلسلہ میں جس سے بھی تعاون مل سکے اور مسئلہ حل ہو سکے اس سے پوچھ لینا ہرگز معیوب نہیں،حتی کہ چھوٹے اساتذہ اور تلامذہ سے بھی بعض مسائل کے پوچھ لینے میں کوئی حرج نہیں ۔

فَاسْأَلُواْ أَهْلَ الذِّکْرِ إِن کُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ (النحل: ٤٣)

اگر تمہیں علم نہ ہو تواہل علم سے پوچھ لو ۔

ابو بکر عبد اللہ بن زبیر الحمیدی جوامام شافعی رحمہ الله کے شاگرد ہیں فرماتے ہیں کہ میں مکہ سے مصر تک امام شافعی رحمہ الله کے ساتھ رہا ،میں ان سے مسائل کے سلسلہ میں استفادہ کرتا تھا اورو ہ مجھ سے حدیث کے سلسلہ میں استفادہ کرتے تھے۔ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے امام شافعی رحمہ الله نے کہا : تم لوگ حدیث کے بارے میں مجھ سے زیادہ علم رکھتے ہو ،اس واسطے جب تمہارے نزدیک کوئی حدیث صحیح ہو جائے تو ہمیں بتادو تاکہ ہم اس کو لے سکیں ۔اور صحابہ کرام  رضى الله عنہم کی ایک جماعت کا تابعین سے روایت کرنا ثابت ہے اور ان سب سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت اُبی رضى اللہ عنہ کے سامنے قرآن پڑھنا اور یہ فرمانا کہ اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ تم پر پڑھوں ۔ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ فاضل کو مفضول سے علمی استفادہ میں ہتک نہیں محسوس کرنی چاہئے۔ (تذکر ۃ السامع والمتکلم فی ادب العالم والمتعلّم:ص۲۹)

اگر کوئی مسئلہ ذاتی مطالعہ اور دوسروں سے پوچھنے کے باوجود بر وقت حل نہ ہو سکے تو درس کے وقت طلبہ سے صراحت کے ساتھ کہدیں ’’لا ادری‘‘ یعنی مجھے بروقت یہ مسئلہ معلوم نہیں، اوربعد میں تحقیق اور مطالعہ کرکے بتائیں گے۔

اگر کسی مسئلہ میں صحیح علم نہ ہو تو صرف اپنی ناک بچانے کے لئے غلط سلط یا اندازے سے کوئی بات نہیں بتانی چاہئے، بلکہ خندہ پیشانی سے عدم واقفیت کا اعتراف کرنا چاہئے اور پھر معلومات حاصل کر کے بعد میں بتا دینا چاہئے ۔اس سے استاد کا علمی وقار قائم اور طلبہ کااس پر اعتماد برقرار رہتاہے اور وہ بلا علم بات کرنے اور غلط بیانی کے اس گناہ اوروبال سے بھی محفوظ ر ہتا ہے جس کی جانب حدیث ’’ مَنْ أُفْتِىَ بِغَيْرِ عِلْمٍ كَانَ إِثْمُهُ عَلَى مَنْ أَفْتَاهُ ‘‘ میں اشارہ کیا گیا ہے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود متعد دسوالات کے جوابات میں لا علمی کا اظہار فرمایا اور جب ان کے بارے میں وحی نازل ہوئی تب بتايا ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودرضى اللہ عنہ فرماتے ہیں :

يَا أَيُّهَا النَّاسُ ، مَنْ سُئِلَ مِنْكُمْ عَنْ عِلْمٍ هُوَ عِنْدَهُ ، فَلْيَقُلْ بِهِ ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ ، فَلْيَقُلْ : اللَّهُ أَعْلَمُ ، فَإِنَّ مِنَ الْعِلْمِ أَنْ تَقُولَ لِمَا لاَ تَعْلَمُ : اللَّهُ أَعْلَمُ ، إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : {قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ (مسند أحمد 1/ 431 )

لوگو !جس سے کسی علمی مسئلہ کے بارے میں پوچھا جائے تو اگر اسے معلوم ہو تو چاہئے کہ بتائے ،اور جس کے پاس اس کے بارے میں علم نہ ہو وہ ’’اللّٰہُ اَعْلَمُ ‘‘کہہ دے، اس لئے کہ یہ بھی علم ہے کہ جس کے بارے میں آدمی نہ جا نتا ہو’’اللّٰہُ اَعْلَمُ‘‘ کہہ دے ، اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کر کے فرمایا : ’’آپ لوگوں سے کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس پر اجرت نہیں طلب کرتا ہوں،اور نہ میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں۔

حضرت ابراہیم  بن طہمان رحمہ اللہ کو لوگوں کو مسائل بتانے پربیت المال سے ماہانہ وظیفہ ملتا تھا ، ایک دن ایک مسئلہ کے بارے میں ان سے سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا : ’’لاأدری‘‘یہ مسئلہ مجھے نہیں معلوم ، بعض لوگوں نے کہا :ہر ماہ اتنی اتنی تنخواہ لیتے ہو اور ایک مسئلہ اچھی طرح نہیں جانتے ؟ انھوں نے برجستہ کہا:’’ اِنَّمَا آخُذُ عَلٰی مَا اُحْسِنُ ،وَلَوْ أخَذْتُ عَلٰی مَالَااُحْسِنُ لَفَنِیَ بَيْتُ الْمَالِ ولَا يَفْنیٰ مَالَا اُحْسِنُ‘‘ میں جو اچھی طرح جانتا اور بتاتا ہوں اسی پر تنخواہ لیتا ہوں، اگر میں ان باتوں پر پیسے لینے لگوں جن کا مجھے ٹھیک سے علم نہیں توبیت المال کا خزانہ ختم ہوجائے گااور میری وہ باتیں ختم نہ ہوں گی جنھیں میں اچھی طرح نہیں جانتا۔

خلیفہ کو ان کا یہ جواب بہت پسند آیا اور اس نے انھیں انعام اور خلعَت سے نوازا اور تنخواہ میں بھی اضافہ کردیا۔(العلم و الدین:ص۲۴،۲۵)

اورابو عمر الزاہد فرماتے ہیں کہ میں ابو العباس ثعلب کی مجلس میں تھا ،ایک سائل نے ان سے کسی مسئلہ کے بارے میں پوچھا ، انھوں نے کہا ’’لاادری‘‘ یعنی یہ مسئلہ مجھے معلوم نہیں ۔اس نے کہا:آپ’’لاادری ‘‘ کہتے ہیں حالانکہ لوگ آپ کے پاس اونٹوں پر کجاوے کَس کر اور ہرہر شہرسے سفر کر کے آتے ہیں؟ابو العباس ثعلب نے اس سے کہا:اگر تیری ماں کے پاس میرے ’’ لا ادری‘‘ کے برابر اونٹوں کی مینگنیاں ہو جائیں تو وہ مال دار ہو جائے گی۔(مصدر سابق :ص۲۴)

غرضیکہ اساتذہ کومطالعہ اور تیاری کر کے کلاس میں آنا چاہئے اور مطالعہ وتحقیق کے بعد ’’علی وجہ البصیرۃ‘‘پڑھانا چاہئے اورجو چیزیں معلوم نہ ہوں بلا جھجک ان کے بارے میں اپنی لا علمی کا اظہار کر دینا اور بعد میں تحقیق و مطالعہ کر کے بتانا چا ہئے ۔


Print Friendly and PDF

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی

Post Add 1

Post Add 2