Header Add

سنت نبوی ﷺ میں کلاس روم مینجمنٹ کی مثالیں

Print Friendly and PDF

 سنت نبوی ﷺ میں کلاس روم مینجمنٹ کی مثالیں

کلاس کا جائزہ لیتے وقت اس کو بھی دیکھنا ضروری ہے کہ طلبہ کلاس میں قاعدے سے بیٹھے ہیں یا نہیں ، اگر طلبہ قاعدے سے نہیں بیٹھے ہیں اور اِدھر اُدھر متفرق و منتشر ہیں تو پھر درس کا خواطر خواہ فائدہ نہیں ہوگا ۔

کچھ مدارس میں طلبہ کو کلاس میں بٹھانے کا اصول یہ ہے کہ سالانہ امتحان میں نمبرات کے حساب سے جیسے ان کی ترتیب ہوتی ہے اسی ترتیب سے کلاس میں بٹھاتے ہیں ،اس میں جہاں یہ فائدہ ہے کہ ذہین اور محنتی طلبہ کے آگے اور استاذ کے قریب ہونے کہ وجہ سے ، وہ صحیح صحیح عبارت خوانی کرتے ، استاذ کی باتوں اور درس کو جلدی اور اچھی طرح سمجھتے ہیں اور بعد میں اپنے ساتھیوں کو مذاکرہ کراتے اور درس سمجھاتے ہیں ، وہیں اس میں یہ خامی بھی ہے کہ اس سے کمزور طلبہ پیچھے ہوجاتے ہیں جو ایک تو پہلے سے پیچھے اورکمزور ہوتے ہیں دوسرے استاذ سے دور اور آخری صفوں میں ہوجانے کی وجہ سے استاذ کے درس اور تقریر کو صحیح اور مکمل طور سے نہیں سن پاتے ،جس سے سبق کے بہت سے اجزاء ان کی سمجھ میں نہیں آتے۔

 نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ترقی کرنے کے بجائے علمی اعتبار سے اور پیچھے ہوتے جاتے ہیں۔علاوہ ازیں اس سے بہت سے طلبہ استاد کی نظروں سے دور ہونے اور سبق کے برابر نہ سننے کی وجہ سے اونگھنے اور سونے لگنے لگتے ہیں یا کسی دوسرے کام میں مشغول ہوجاتے ہیں ۔ اس طرح یہ طلبہ تعلیم میں مزید کمزور اور پیچھے ہو تے جاتے ہیں ۔

بعض اساتذہ کمزور ، معذور اور شریر بچوں کو آگے بٹھاتے ہیں، تاکہ کمزور اور اونچا سننے والے بچے استاذ کی باتوں کو اچھی طرح سن اور سمجھ سکیں اور تعلیم میں پیچھے نہ رہ جائیں ،اسی طرح وہ طلبہ جو شرارت کرتے ہیں یا درس کے وقت سوتے رہتے ہیں انھیں بھی آگے بٹھاتے ہیں تاکہ ان پر برابر نظر رہے اور انھیں سونے یا شرارت کرنے کا موقع نہ ملے، یہ بڑی اچھی بات ہے لیکن اگر سارے ذہین بچے پیچھے چلیں جائیں تو یہ ہوسکتا ہے کہ استاذ کی کچھ علمی باتیں وہ بھی نہ سن پائیں اور کمزور بچے بھی نہ سمجھ پائیں جس سے وہ باتیں غیر مفہوم رہ جائیں ۔ اورجامع ترمذی: ۵؍۷۳ (۷۲۵ ۲) سنن ابی داود :۵؍۱۶۴(۴۸۲۵) الادب المفرد للبخاری :ص۲۹۲(۱۱۴۱) میں حضرت جابر بن سمرۃ رضى اللہ عنہ کی روایت ہے :

 ’’ كُنَّا إِذَا أَتَيْنَا النَّبِىَّ صلى الله عليه وسلم جَلَسَ أَحَدُنَا حَيْثُ يَنْتَهِى ‘‘

ہم جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر ہوتے تو مجلس جہاں ختم ہوتی وہیں بیٹھ جاتے تھے ۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مجلس اور کلاس میں پہلے آنے والوں کو آگے اور مدرس کے قریب بیٹھنے کا زیادہ حق ہے اور ہر شخص جیسے جیسے آئے پیچھے ترتیب سے بیٹھتا جائے۔

البتہ صحیح بخاری :۱؍۱۵۶(۶۶) ’’ باب من قعد حيث ينتهي به المجلس ومن رأى فرجة في الحلقة فجلس فيها ‘‘ اور جامع الترمذی :۵؍۷۳ ( ۲۷۲۴)میں ابوو ا قد اللیثی سے روایت ہے کہ

 ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرماتھے اور آپ کے ساتھ دوسرے لوگ بھی تھے کہ تین آدمی آئے جن میں سے دو آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس کے قریب آئے اور کھڑے ہوگئے ، پھر ایک آدمی نے حلقہ میں ایک خالی جگہ دیکھی اور وہاں جاکر بیٹھ گیا اور دوسرا ان کے پیچھے جاکر بیٹھ گیا اور تیسرا پیٹھ پھیر کر چلاگیا ، رسول اللہْ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنی باتوں سے فارغ ہوئے تو فرمایا :

’’ کیا میں تم لوگوں کو تینوں افراد کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ اس میں سے ایک نے اللہ کے پاس پناہ لی ، اور دوسراشرمایا (اور اس کی وجہ سے مجلس سے واپس نہیں گیا ) تو اللہ نے بھی اس سے شرم کی (اور اس پر رحم فرمایا ) اور تیسرا رخ پھیر کر چلا گیا تو اللہ نے بھی اس سے رخ پھیر لیا ‘‘۔

اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ اگر آگے کی صفوں میں یا حلقۂدرس میں کوئی جگہ خالی ہوتو بعد میں آنے والے شخص کے لئے اس جگہ بیٹھنا نہ صرف جائز ہے بلکہ مستحب بھی ہے ۔ اور ان حدیثوں سے مجموعی طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو طلبہ کلاس میں پہلے آئیں وہ آگے بیٹھیں اور بعد میں آنے والے جہاں جگہ خالی دیکھیں وہاں یا اخیر مجلس میں بیٹھیں ۔

اس میں کئی فائدے ہیں ، مثلاً: آگے بیٹھنے کے لئے ہر طالب علم کلاس میں پہلے پہونچنے کی کوشش کرے گا اوراس میں ہر طالب علم کے لئے آگے بیٹھنے اور استاد کے درس سے اچھی طرح استفادہ کرنے کا موقع رہتا ہے ، اور جس کو بھی علم کا شوق ہوگا خواہ وہ ذہین و فطین ہو یا کمزور اور غبی ، وہ پہلے آکر استاد کے قریب اور سامنے بیٹھنے کی کوشش کرے گا ۔

رہے کلاس میں سونے اور شرارت کرنے والے طلبہ تو استاذ انھیں تنبیہ کرسکتا اور اول وقت میں کلاس میں بلاکر اپنے قریب اور سامنے بٹھا سکتا ہے ،بصورت دیگر اپنے دائیں بائیں بٹھا سکتا ہے ۔

اس واسطے میرے نزدیک یہ طریقہ سب سے زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے، البتہ درس کی مصلحت کی خاطر استاذ کبھی بعض ذہین طلبہ کو آگے بلا سکتا ہے ۔جیسا کہ امام مالک  رحمہ الله نے امام شافعی رحمہ الله کو بلایا تھا۔ (انظر رحلۃ الامام الشافعی: ص۲۵،۲۶ )

کلاس میں نظم برقرار رکھنا

اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ درس کے وقت اپنے کلاس میں نظم و نسق کو برقرار رکھیں ،کلاس پر ان کا مکمل کنٹرول ہو ۔ اور طلبہ درس کے وقت خاموشی اور توجہ سے درس سنیں ،ضروری باتیں نوٹ کریں، اور اِدھر اُدھر تانک جھانک، جھگڑا لڑائی اورکھیل کود سے اجتناب کریں اور دوسری کتابوں اور مجلات و جرائد کا مطالعہ نہ کریں۔

اسی طرح درس کے وقت طلبہ کی آمد و رفت کا سلسلہ بند ہو نا چاہئے ۔ کیونکہ دوران سبق طلبہ کے بار بار آنے جانے سے درس میں کافی تشویش اور پریشانی ہو تی ہے، افکا ر کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے،خیالات منتشر ہو جاتے ہیں اور اساتذہ و طلبہ کی توجہ دوسری طرف چلی جاتی ہے۔

بعض اساتذہ کو دیکھا گیا ہے کہ کلاس میں چند طلبہ انہیں گھیر کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور اپنی باتوں میں انہیں لگائے رہتے ہیں اور دوسرے طلبہ چپکے چپکے پیچھے سے باہر نکل جاتے ہیں۔اس طرح درس کا بھی نقصان ہوتا ہے اور کلاس اور اسکول میں بد نظمی ہوتی ہے۔اساتذہ کو بہت ہوشیار ہونا چاہئے اور طلبہ کی اس قسم کی سازشوں کو کامیاب نہیں ہونے دینا چاہئے۔اور کلاس پر مکمل کنٹرول رکھنا چاہئے۔

Print Friendly and PDF

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی

Post Add 1

Post Add 2