Header Add

کلاس روم کے آداب

Print Friendly and PDF

کلاس روم کے آداب

اساتذہ کو علمی تیاری کے ساتھ ذ ہنی اور جسمانی طور بھی پر تیار ہو کر کلاس میں آنا چاہئے۔ چنانچہ پہلے نہا دھو کر، اچھے کپڑے پہن کر اورخوشبو لگا کر تروتازہ ہو جائیں پھر کلاس میں آکر پورے نشاط کے ساتھ درس دیں ۔امام مالک  رحمہ اللہ باقاعدہ غسل کرکے عمامہ اور اچھے کپڑے زیب تن فرما کر اور خوشبو لگا کر درس میں آتے تھے ۔(انظر رحلۃ الامام الشافعی : ص ۲۴)

بعض اساتذہ میلے کچیلے کپڑے میں اور اچھی طرح ہاتھ منھ دھوئے بغیر کلاس میں آجاتے ہیں ،بعض اساتذہ کے کپڑے سکڑے ہوئے اور داڑھی اور سر کے بال پراگندہ اور مونچھوں کے بال بے ہنگم ہو تے ہیں اور اسی طرح وہ کلاس میں پڑھانے آجاتے ہیں ۔ان کا یہ عمل درست نہیں ۔ کیونکہ ایک تو وہ اس سے اپنے طلبہ کے سامنے کوئی اچھا نمونہ نہیں پیش کرتے،بلکہ وہ نا دانستہ طور پر انھیں بھی لا ابالی پن کی تعلیم دیتے ہیں۔

دوسرے یہ اسلام کی نظافت و طہارت کے آداب و احکام اور اہل علم کی شان کے خلاف ہے ۔

تیسرے اس کی وجہ سے کسل مندی اور سستی ہوتی ہے ،اور ذہنی اور جسمانی نشاط نہیں ہو تا۔ اور ظاہر ہے کہ ذہنی اور جسمانی نشاط کے بغیر استاذ تعلیم و تفہیم کا پورا حق ادا نہیں کر سکتا۔

وقت کی پابندی کرنا

اساتذہ کو چاہئے کہ وہ وقت کی پابندی کریں ،اور اپنی گھنٹی شروع ہو تے ہی کلاس میں پہونچ جائیں ۔ اگر اساتذہ کلاس میں تاخیر سے آئیں گے تو طلبہ بھی آنے میں تاخیر کریں گے ،بلکہ ان سے زیادہ ہی تاخیر سے آئیں گے ۔نتیجہ یہ ہوگا کہ اسکول اور کلاس میں بدنظمی پیدا ہو گی ،درس کا حق ادا نہیں ہو گا اور مقررہ نصاب بھی مکمل نہیں ہو پائے گا۔کیونکہ اگر مدرس پانچ منٹ بھی لیٹ کر کے آئے گا تو کم از کم پانچ چھ منٹ طلبہ کی حاضری اور کلاس کا جائزہ لینے میں لگ جائیں گے، اس کے بعد عبارت خوانی ہوگی، اس کے بعد درس شروع ہو گا ،اس طرح لگ بھگ دس بارہ منٹ چلے جائیں گے اور بمشکل تمام ۲۵سے۳۰منٹ درس کے لئے ملیں گے جن میں اطمینان سے سبق پڑھاکر کورس مکمل کرنا مشکل ہوگا۔

اسی طرح اساتذہ کو گھنٹی ختم ہونے کے بعد جلد از جلد درس ختم کردینا چاہئے، بعض اساتذہ زبر دستی دوسرے اساتذہ کی گھنٹیوں میں اپنی کتابیں پڑھاتے رہتے ہیں، جس سے ایک تو ان اساتذہ کو باہر کھڑے ہوکر انتظار کرنا پڑتا ہے اور تکلیف ہوتی ہے ۔دوسرے ان کی حق تلفی ہوتی ہے اور ان کا کورس ختم نہیں ہوتا ۔تیسرے بسا اوقات اس کی وجہ سے اساتذہ میں جھگڑے ہوتے ہیں اور وہ ایک دوسرے کی چغلخوری اور شکایت کرتے ہیں اور بدنام و گنہگار ہوتے ہیں ،اس واسطے اساتذہ کو اپنے وقت کی پابندی کا بہت خیال رکھنا چاہئے۔

کلاس میں داخل ہوتے وقت سلام کرنا

اساتذہ جب کلاس میں جائیں تو داخل ہو تے وقت طلبہ سے سلام کریں ۔ بعض اسکولوں میں دیکھنے میں آتا ہے کہ استاذ جب کلاس میں داخل ہو تا ہے تو وہ سلام نہیں کرتا، بلکہ طلبہ کو کھڑے ہو کر سلام کرنے کے لئے کہتا ہے اور اگر کوئی طالب علم کھڑا نہ ہو تو اسے سزادیتا ہے ۔یہ طریقہ اسلامی اصول کے خلاف ہے ۔اسلامی طریقہ یہ ہے کہ آنے والا بیٹھے ہوئے لوگوں کو سلام کرے ۔

ارشاد باری ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتاً غَيْْرَ بُيُوتِکُمْ حَتَّی تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَی أَهْلِهَا    (النور: ٢٧)

اے مومنو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں نہ داخل ہو ا کروجب تک کہ گھر والوں سے اجازت اور ان کی رضا نہ لے لو اور ان سے سلام نہ کر لو۔

اورحضرت انس رضى اللہ عنہ ایک مرتبہ بچوں کے پاس سے گزرے تو ان کو سلام کیا اور فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔( صحيح البخاري حسب ترقيم فتح الباري : 8/ 68 , صحيح مسلم : 7/ 6)

اسی طرح کسی مجلس میں آنے پر وہاں کے لوگوں کو اپنی تعظیم کے لئے کھڑا کرنا بھی اسلامی طریقہ نہیں ،بلکہ یہ عجمیوں کا شعار اور طریقہ ہے ۔ اس سے بھی اجتناب کر نا چاہئے ۔ حضرت انس بن مالک رضى اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی شخص معزز اور محبوب نہیں تھا ۔لیکن ان کی عادت تھی کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تشریف لاتے ہوئے دیکھتے تو تعظیماً کھڑے نہ ہو تے، اس لئے کہ و ہ جا نتے تھے کہ آپ اسے ناپسند فرماتے ہیں ۔ (رواہ احمد و التر مذی ،وھو حدیث حسن)

              اور حضرت ابو امامہ رضى اللہ عنہسے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ میں چھڑی لئے ہوئے ہمارے مجمع میں تشریف لائے ،ہم آپ کو دیکھ کر کھڑے ہو گئے تو آپ ناراض ہوئے اور فرمایا :

لاَ تَقُومُوا كَمَا تَقُومُ الأَعَاجِمُ يُعَظِّمُ بَعْضُهَا بَعْضًا    (انظر مسند احمد:۵؍۲۵۳،وابوداود:۵؍۳۹۸(۵۲۳۰)

جیسے عجمی لوگ ایک دوسرے کی تعظیم میں کھڑے ہوتے ہیں اس طرح مجھے دیکھ کر تم لوگ کھڑے نہ ہو ا کرو۔

ایک مرتبہ حضرت معاویہ رضى اللہ عنہ باہر نکلے، وہا ں ابان بن زبیررضى اللہ عنہ اور ابن عامررضى اللہ عنہ تھے ،آپ کو دیکھ کر ابن عامر کھڑے ہو گئے اور ابن زبیر بیٹھے رہے، حضرت معاویہ رضى اللہ عنہ نے ابن عامررضى اللہ عنہ سے فرمایا :

اجْلِسْ فَإِنِّى سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ : مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَمْثُلَ لَهُ الرِّجَالُ قِيَامًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ

(رواہ ابو داود:۵؍ ۸ ۹ ۳،وا لترمذ ی :۵؍۹۰ ، وقال : حد یث حسن )

بیٹھ جاؤ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے:جسے پسند ہو کہ لوگ اس کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوں اسے چاہئے کہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔

بہر حال کلاس میں داخل ہوتے وقت اساتذۂ کرام کوخود سلام کرنا چاہئے اور طلبہ کو اپنی تعظیم کے لئے کھڑا نہیں کرنا چاہئے،بلکہ انھیں اس سے منع کرنا چاہئے۔

طلبہ کی حاضری لینا

کلاس میں آنے کے بعد اساتذہ کو سب سے پہلے طلبہ کی حاضری لینی چاہئے اورتاخیر سے آنے والوں کو غیر حاضر بنانا اور سختی سے تنبیہ کرنا چاہئے ۔اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ طلبہ اول وقت میں ہی کلاس میں پہونچ جائیں گے، درس كے لئے زیادہ وقت ملے گا، اساتذہ اطمینان سے پورا سبق پڑھائیں گے ، درمیان میں کوئی تشویش نہیں ہو گی اور طلبہ ڈسپلن اور نظام کی پابندی کے عادی بنیں گے ۔

بعض اساتذہ شروع میں تو حاضری لے لیتے ہیں مگر بعد میں آنے والے طلبہ کو بھی حاضر بناتے رہتے ہیں۔اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا ۔بلکہ الٹے نقصان ہوتا ہے ۔

اسی طرح بعض اساتذہ گھنٹی کے اخیر میں حاضری لیتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ طلبہ وقت کی پابندی نہیں کرتے اور اخیر تک آتے رہتے ہیں، جس سے درس میں تشویش ہو تی ہے اور جو طلبہ سبق کے ابتدائی حصے میں غیر حاضر رہتے ہیں وہ استاذ کے درس اور علمی فوائد سے محروم رہتے ہیں اور استاذ کی محنت خاطر خواہ بار آور نہیں ہوتی۔

جو طلبہ درس سے غیر حاضر رہیں اساتذہ کو ان کے بارے میں پرشش اورتحقیق کرنی چاہئے ،اور غیر معقول عذر ہونے کی صورت میں ان کی تنبیہ كے لئے مناسب کاروائی کرنی چاہئے۔تاکہ ان کی یہ بری عادت چھوٹ جائے اور وہ حقیقی طالب علم بن سکیں۔

کلاس کا جائزہ لینا

حاضری لینے کے بعد اسا تذہ کو کلاس کا جائزہ لینا چاہئے اور طلبہ کے لباس ،شکل و صورت ، اور وضع قطع پر نظر ڈالنی چاہئے۔اسی طرح یہ بھی دیکھنا چاہئے کون درس کے لوازمات :کتاب ، کاپی اور قلم وغیرہ لایا ہے اور کون نہیں ۔نیز یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ کوئی غیر درسی چیزیں خاص طور سے گندے رسالے اور ناول وغیرہ تو لے کر نہیں آیا ہے اور درس سننے کے بجائے انھیں رسالوں اور کتابوں کو  پڑھتا ہے۔

بعض طلبہ کلاس میں کھیل کے سامان، ٹیپ ریکارڈ اور کیسٹیں لے کر آتے ہیں اور اساتذہ کی نظریں بچاکر ان سے کھیلنے اور محظوظ ہونے میں لگے رہتے ہیں اور سبق نہیں سنتے ۔کلاس میں ایسے طلبہ کی حاضری بے معنی ہوتی ہے۔ اس واسطے اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ درس شروع کرنے سے قبل کلاس کا جائزہ لیں اور جہاں انہیں آداب درس کے خلاف کوئی چیز نظر آئے فورا اس پر تنبیہ اور طلبہ کی ا صلا ح کریں ۔

Print Friendly and PDF

Post a Comment

أحدث أقدم

Post Add 1

Post Add 2